ہفتہ، 6 اپریل، 2019

نکاح تو سنت ہے

تحریر:محمد ظہیر اقبال
محترم وزیراعظم جناب عمران خان صاحب میں کسی بحث میں الجھے بغیر آپ کے سامنے چند گزارشات بیان کرنا چاہتا ہوں جو حقیقت اور سچائی پر مبنی ہیں۔ وزیراعظم صاحب ہر دور میں غریب آدمی نے ہی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی غریب ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے کے باوجود ہر طرح سے آپ کے لئے دُعا گوہ ہیں۔ ان غریبوں کے پاس مال و دولت تو نہیں ہوتا اسی لئے تو یہ غریب کہلاتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو بڑے بڑے مال داروں کے ہاں بھی کم ہی پائی جاتی  ہے اور وہ ہے ان کی خوداری اور عزتِ نفس جسے یہ بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اگر خدا نا خواستہ ان کی یہ پونجی لُٹ جائے تو پھر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ جناب وزیراعظم صاحب اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں جو لوگ امیر اور خوشحال ہیں ان میں پچاس فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سے دوسروں کے حق حقوق مارے ہوئے ہیں ۔ یہ ظالم لوگ ہر سطح کے طبقے میں پائے جاتے ہیں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا بلکہ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان امیروں کی دیکھا دیکھی کچھ ناعاقبت اندیشوں نے شادی جیسے پاکیزہ رشتے کو بھی باقائدہ ایک کاروبار اور رسم رواج بنا دیا ہے حالانکہ اسلام اس طرح کی تمام چیزوں کی نفی کرتا ہے لیکن کون سمجھائے اُس عقل کے اندھے امیر کو جو صرف مہندی کی رسم کے نام پر تیس پنتیس لاکھ خرچ کر ڈالتا ہے اور نہیں سوچتا کہ میرا یہ عمل دوسروں کے لئے پہلے مثال اور بعد میں مسئلہ بن جائے گا۔ ایک نوکری پیشہ یا چھوٹا کاروباری کسی طور بھی اتنی رقم صرف مہندی تو درکنارمکمل شادی پر بھی خرچ کرنے کی استعاعت نہیں رکھتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کی عمر کو پہنچی بچیاں احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس سے بھی خطرناک صورتِ حال معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کو دیکھا جا سکتا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کرحوا کی بیٹیوں کو جیتے جی جہنم جیسی زندگی گزرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی بروقت شادی کر کے اپنا شرعی اور معاشرتی فرض ادا کر کے اپنی زندگی کے آخری آیام کو اپنے لئے پُر سکون بنائیں لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ بیشتر والدین بیٹیوں کی شادی کر کے ابھی کمر بھی سیدھی نہیں کرتے کہ بیٹی والدین کے دروازے پرآنکھوں میں آنسو اور لب پہ جہیز میں یہ نہیں تھا وہ نہیں تھا لئے آ کھڑی ہوتی ہے۔میں نہیں سمجھتا کوئی والدین اپنی بیٹی کی خوشی کے کئے کوئی کسر اُٹھا رکھیں لیکن جہیز کی ہندوانہ رسم ہمارے معاشرے کی پاکیزہ اور خوبصورت روایات کو تباہ و برباد کرتی جا رہی ہے۔ یہ تو اس ظلم کا نسبتاً نرم پہلو ہے ورنہ عام رواج تو پہلے تیل کا چولہہ تھا اور آج کل گیس لیکج،آگ اور کہانی ختم۔۔ جناب وزیراعظم صاحب کون ہے اس ظلم و ستم کے نظام اور رسم و رواج کا ذمہ دار ؟ اسلام نے تو بیٹی کو بھی باپ کی وراثت میں حصہ اور حق دار بنایا ہے لیکن آج کے مسلمان کی نظر میں رسم و روج دین اسلام سے بڑھ کر ہیں ہزاروں لاکھوں بچیاں ہیں جن کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے صرف اس لئے کہ کچھ کم ظرفوں نےفضول خرچی کی ایسی ایسی مثالیں قائم کر رکھی ہیں کہ جنہیں ایک عام آدمی پورا نہیں کر سکتا۔ میں وزیراعظم عمران خان سے درخواست اور التجا کرتا ہوں کہ آپ نے ریاستِ مدینہ کی بات کی اچھی بات ہے ضرور بنائیں لیکن اس ریاست مدینہ میں جہیز جیسی ہندوونہ رسم پر پابندی لگائیں اور باپ کی جائداد میں بیٹی کا شرعی حصہ دینے کو یقینی بنائیں۔دین اسلام کو جتنا نقصان ہندوستان کے مُلاں اور مولوی نے پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا میں اس وقت اتنا ہی کہتا ہوں کہ پاکستان بننے سے لے کر آج دن تک مُلاں اور مولوی نے کسی ایک موقع پر بھی اپنے حقیقی کردار اور منصب کا حق ادا نہیں کیا پاکستان بننے سے پہلے اس کی مخالفت میں یہ طبقہ پیش پیش رہا اور پاکستان بننے کے بعد حالات سب کے سامنے ہیں حضور نبیِ کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ دین میں سب سے آسان کام کیا ہے تو آپؐﷺ نے فرمایا نکاح ۔ لیکن آج نکاح کو مشکل سے مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ اگر ہم ایک مثالی معاشرے کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے بنیادی چیزوں کو درست کرنا ہوگا۔ شادی یا نکاح کا ایک ایسا طریقہ اور قانون واضع کیا جائے جس میں امیری غریبی کسی طور سے رکاوٹ نہ بن سکے۔ میں سمجھتا ہوں کسی ملک قوم یا ریاست کی بنیاد جن اہم ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے ان میں سب سے اہم اور سب سے قیمتی ستون خاندانی نظام ہے۔ اور یاد رہے یہ آخری ستون بچا ہے جسے گرانے اور توڑنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ مشرف دورمیں نام نہاد حقوقِ نسواں بل درحقیقت خاندانی نظام کو توڑنے کی ایک ابتدائی کوشش اور شروعات تھی۔ مغربی معاشرہ آج تبائی کے جس مقام پر پہنچا ہے اس کی وجہ خاندانی نظام کا ٹوٹنا ہے۔ عثمانی دور میں نکاح ریاستی ذمہ داری تھی۔ محترم وزیراعظم صاحب اگر آپ کی حکومت واقعی میں عام آدمی کی حکومت ہے تو ان غریبوں بلکہ اب توسفید پوش درمیانہ طبقہ بھی غریبوں میں شامل ہے کے لئے یہ نیک کام کر کے اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کو یقینی بنانے میں دیر نہ کریں۔ مہنگائی نے ویسے بھی غریب اور سفید پوش کے بھرم کی چادر کو اُڑا کے تار تار کر دیا ہے۔ ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے قیمتی اور بہترین چیز تعلیم ہے۔ بحصیت ایک انسان مرد و عورت کی شخصیت کا معیار اس کا کردار ہونا چاہئے نہ کہ مال و دولت۔یاد رہے خاندانی نظام وہ کڑی ہے جس پر اسلامی معاشرے کی پوری عمارت کھڑی ہے اور اگر یہ کڑی اک بار ٹوٹ گئی تو پوری عمارت زمیں بوس ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ اس ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔امین یا رَبّ العالمین۔۔

ہفتہ، 2 مارچ، 2019

جنگ اور امن

کون جنگ چاہتا ہے، کون امن چاہتا ہے !
تحریر : جلال ؔ


خدا  کرے کسی دشمن کو بھی کم ظرف دشمن سے واسطہ نہ پڑے ۔جی ہاں یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا دشمن انتہائی درجے کا کم ظرف ،مکار،جھوٹا اور پرلے درجے کا  ضدی بچہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہا کا خوش فہم بھی ہے ۔ بھارت  دنیا کا  واحد ملک ہے جہاں ہر چیز کو اس کے منفی پہلو سے دیکھا ،پرکھا اور مانا جاتا ہے۔ابھی  شاید آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن جوں جوں بات آپ کی سمجھ میں آتی جائے گی غیر ارادی طور پر آپ مجھ سے اتفاق کرنے لگیں گے۔سب  سے پہلے میڈیا کا ذکر ضروری ہے کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جو عوام کے دل و دماغ کو آج کنٹرول کر رہا ہے۔پوری دنیا میں  بھارت وہ واحد ملک ہے جس کا میڈیا  صرف اور صرف جھوٹ کے سہارے چلتا ہے۔جھوٹ بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ جسے سفید جھوٹ کہا جاتا ہے اس سے بھی زیادہ جھوٹ یعنی جس چیز کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا بھارتی میڈیا اُسے بھی سچ اورحقیقت بنا کے دیکھا دیتا  ہے۔اور اگر بات پاکستان کی ہوتو  پھرہر بھارتی کے جسم میں جھوٹ کی دیوی ماتا کی اتما   اُتر آتی ہے  اور پھر اُسے خود بھی  یاد نہیں رہتا کہ وہ کیا کیا  اور کیسے کیسے جھوٹ بول گیا ہے وہ نہیں جانتا کہ  اُسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور ابھی ساری دنیا اندھی نہیں ہوئی ہے  اور نہ ہی ساری دنیا دیوانی  اور پاگل ہے جو ان کے انے انے کے راگ  پاٹ اور  اجو باجومیں ہونے والی اُٹھک  پھٹک نہ سمجھ  سکے۔
حالیہ چند دونوں میں بھارتی میڈیا نے جس طرح سے جنگ،جنگ،جنگ اور بدلہ بدلہ کی گردان کی رٹ لگائی اور ٹی وی سکرین پر دن میں دس دس مرتبہ پاکستان کو فتح کیا یہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایف 16 جہاز تک  تباہ کرنے کا دعوٰی اور اعلان کر ڈالا یہ سب دیکھ  کر ایک عام اور نارمل انسان حیران پریشان ہو جاتا ہے پھر سوچتا ہے شاید یہ کوئی ایسا چینل ہے جس میں ذہنی طور پر بیمار لوگو کام کرتے ہیں   جو  دیکھائی اور سُنائی دیتا ہے اس تو یہی سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی طرح سے بھی یہ سب نارمل نہیں لگتا؟ اب زرا منفیت (یعنی منفی سوچ) کی اِک جھلک بھی دیکھ لیں  وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب  جزبہ خیر سگالی کے طور پر گرفتار بھارتی پائلٹ کو غیرمشروط  طور پر بھارت کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں۔اورساتھ ہی   اُدھر بھارتی میڈیا اُسی لمحے " پاکستان نے گٹھنے ٹیک دئیے ہیں اور بھارت کی برتری اور فتح کو تسلیم کر لیا گیاہے"  !!! اندازہ کریں  کس قدر ہواس باختہ اور خوش فہمی میں مبتلہ ہے یہ  قوم  !!پتا نہیں انہیں قوم  کہنا بھی چاہئے کہ نہیں خیر۔۔ایک ایسا کام جو سرا سر انسانی ہمدردی اور خطے کو جنگ سے بچانے کے لئے وزیراعظم پاکستان کرنے کا اعلان کرتے ہیں  بھارتی میڈیا اسے کیا  سے کیا  معنی  اور رنگ دے دے کر دیکھاتا  ہے۔ ہو سکتا بھارت میں کسی کے احسان کا بدلہ یوں ہی چُکایا جاتا ہو ! لیکن باقی کی دنیا ابھی  بے ذوقی اور  پستی کی اس حد کو نہیں پہنچی دنیا میں احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور ہمیشہ اُس کے سامنے احسان مندی کا رویہ اپنایا جاتا ہے  ۔کسی دانا کا قول ہے کہ  کوئی فرد یا قوم جب منافقت کی پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھتی ہے تو پہلا جھوٹ بولا جاتا ہے بس پھر یونہی رفتہ رفتہ  آخری سیڑھی  تک جھوٹ  بولتے بولتے  پہنچا جاتا ہے اور یہ  احساس تک نہیں ہوتا کہ کب ان کادین دھرم بلکہ سب کچھ جھوٹ ، جھوٹ اور بس جھوٹ بن  چکا ہوتا ہے  الغرض ہر چیز کی شکل و صورت  کو منافقت اور جھوٹ کی چادر سے ڈھانپ  دیا جاتا ہے  ۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی معاشرے  میں تہمات،شک، شرک،ذات پات ،جھوت چھات،جوٹھ جاٹھ  جیسی نفرتوں کی  لاکھوں اشکال نے مورتیوں اور بُتوں کی شکل  میں  اس قوم کا  دین دھرم اوراُڑھنا بچھونا بنا  رکھا ہے۔پستی کے اس مقام پر پہنچ کر  ایسی اقوام ہٹ دھرم ضدی مُنہ پھٹ اور اندھے پن کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنے تائیں ایک انتہائی  پارسا اور منفرد خیال کرنے لگتی ہیں  یہ بلکہ ایسے ہی ہے جیسے یہودی قوم کا اپنے بارے میں یہ کہنا ہے کہ "ہم منتخب زداہیں"جبکہ حقیقت میں ایسا  کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا ان کی بات مانے  اور اسے ہی سچ کہے مطلب   یہ  رات کو دن کہیں تو باقی دنیا بھی رات کو دن کہے مانے اور سمجھے  اور اس فریب کو اپنے فکر و عمل کا نتیجہ خیال   کر کے اس کی پوجا کرے ۔لاحولاولاقوۃ
اس دیرِ کہن کے مندر میں حسد،جھوٹ،مکر و فریب اور ریا  کی کالی دیوی  کے چرنوں میں فاقہ زدا زندہ انسانوں کی آہیں اورسسکیا ں بھینٹ کی صورت  اس کے بوجاریوں کے لئے سامانِ عیش و عشرت کے ساتھ ساتھ  معاشرت و سیاست  کےایسے   سکےاور مہرے بن کہ رہ جاتے ہیں جن سے  ہر دور کے مودی جیسے لاکھوں  اپنے  متعصب  فکر و فلسفے کی بدبو دار گندی  شکل و صورت کو چمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
حضرتِ اقبالؒ  ہندوستانی معاشرے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں؛

آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

وزیراعظم پاکستان محترم جناب عمران خان صاحب کی شخصیت حب الوطنی،خوداری، ایمانی غیرت وسچائی ،انسان دوستی ، درگزر اور معاف کر دینے  جیسی  اعلٰی  صفات کی آئینہ دار ہےیہی وجہ ہے کہ عمران خان صاحب  ہر معاملے میں ایک مثبت اندازِ فکر  کے زیر اثر رہتے ہوئے   انسانوں  سے  پیار و محبت  اور انسانوں کے لئے سردی گرمی سے بچاؤ کی تدبیریں اور انتظامات کرتے پھرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان  کی نہ تو فیکٹریاں بھارت میں  چل رہی ہیں اور نہ ہی کوئی مودی وزیراعظم پاکستان کا یار ہے جسے خوش کرنے کے لئے بھارتی پائلٹ یا جنگی قیدی واپس کرنا چاہتے ہیں بلکہ صرف اور صرف مقصد ِ اولین یہ ہے کہ خطے کو جنگ و جدل کی جانب بڑھنے سے روکا جائے اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جا ئے۔لیکن بدقسمتی سے  دوسری جانب آج ہندوستان کی سرزمین پر ایک ایسا شخص اقتدار کی کرسی پرآ بیٹھا ہے جس کے ہاتھ  ہزاروں  انسانوں کے قتل سے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔واہگاہ بارڈر اور سمجھوتہ  ایکسپریس ٹرین سے لے کر گجرات   کے قتل عام تک لاکھوں انسانوں کو زندہ جلانے اور ان  کے ٹکڑے ٹکڑے کروانے والا یہی مودی  ہے جو  وزیراعظم پاکستان عمران خان کے  برابر  بھی کھڑے ہونے کی اوکات نہیں رکھتا   لیکن وزیراعظم جناب عمران خان  اسے امن  اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں۔محترم عمران خان صاحب انسان دوستی اور ہندوستان میں بسنے والے لاکھوں کڑوڑوں  انسانوں   کو جنگ کی ہولناک تباہ کاریوں  سے بچانے کی بات کرتے ہیں اور   بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی واپسی کی بات کرتے ہیں  صرف اس لئے کہ آج جنگ سے زیادہ ضروری انسانیت کو غربت ،دکھوں ،غموں  اور مصائب  سے نِکالنے  کی ضرورت ہے۔ لہذا بھارتی حکومت کو  جنگی قیدی  جو  پائلٹ ہے   حوالے کرنے کی بات کی جاتی  ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھارت   جس نے کبھی کسی موقع پر  مثبت رویہ  نہیں اپنایا اور  کوئی  موقع نہیں  چھوڑا جب اس نے  پاکستان پر وار  نہیں کیا  ان سب باتوں کو ایک طرف کرتے ہوئے  امن  کا پیغام دیا جاتا ہے۔لیکن  اس کے ساتھ واضع اور دو ٹوک الفاظ میں ہم بھارت کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ   پاکستان  کی امن بات چیت کو کسی کمزوری اور مجبوری  پر قیاس کرنے  اور اس طرح کے معنی پہنانے  والوں کے لئے افواج پاکستان کا بھارتی طیاروں کا شکار  اور  وار صرف ایک وارنگ اور پیغام نہیں  بلکہ اگر  ہمیں مجبور کیا گیا  تو ہمارا  وار دنیا صدیوں تک یاد رکھے گی  ہم اگر تمہارا  پائلٹ  واپس کر رہے ہیں تو اس لئے نہیں کہ بھارتی  حکومت یا فوج کوئی بڑی قوت  یا  بلا ہے جس سے ہم ڈر گئے ہیں نہیں صرف اس لئے کہ ہم دوبارہ پکڑنے  کی صلاحیت اور قوت رکھتے ہیں  ہمارے فوجی جوان کا پہلا سبق ہی یہ ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی  گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ اس لئے کہ  ہمارے دل و دماغ نے ٹیپو سلطان کے فکر و عمل سے رہنمائی حاصل کی ہے۔جبکہ  ہم نے اپنے تمام  فیصلوں  کا اختیار  زمین وآسمان کے خالق و مالک  اللہ تعالیٰ جلہ جلال اور  رسولِ خدا  ہمارے آقا و مولا  امام انبیا   بلند مرتبہ اور  بزرگی والے ہادیِ دوجہاں  رَحمتُ العالمین  حضرت محمد ﷺ کو دے رکھا ہے۔لہذا ہمیں ڈرانے دھمکانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا ہاں البتہ ہم دوستوں کے دوست اور  دوست کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ ہمارا پیغام امن و محبت  اور انسان دوستی ہے۔ہمارا دین  اسلام  ہے جس میں انسان تو انسان جانورں کے بھی حقوق ہیں  ہمارے نبیِ مُکرم حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں اللہ  کے آخری نبی و رسول ہیں جنہیں دشمنوں نے بھی صادق و امین جانا  اور مانا  ہے۔  آپؐ   کائینات کی تمام  مخلوقات   کے لئے  رحمت العالمین  بنا کر بیجئے گئے ہیں ۔
ائے  نادان  دوست تجھے گزرے کل میں حضرتِ  اقبالؒ نے   یہی پیغام دیا تھا اور آج بھی تیرے لئے یہی ایک راستہ ہے  ؛

سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو بُرا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پُرانے
اپنوں سے بَیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا
جنگ و جدَل سِکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
پتھّر کی مُورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں
بِچھڑوں کو پھر مِلا دیں نقشِ دُوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شِوالا اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلَس مِلا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے
سارے پُجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں
شکتی بھی، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے

اتوار، 17 فروری، 2019

تکرار

تکرارRepetition – 

تحریر:  جلال 
دنیا کی عمر کے بارے میں اس قدر ترقی کے باوجود اب تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی ہے……
کوئی کہتا ہے یہ دنیا اربوں سال پرانی ہے!……
کوئی کہتا ہے کہ ایک ایسا ڈھانچہ دریافت ہوا ہے جو کروڑوں سال پرانا ہے!……
کہیں سے آواز آتی ہے کہ دنیا لاکھوں سال پرانی ہے……
اور جب دنیا کی تاریخ زیر بحث آتی ہے تو اعلیٰ دماغ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ پانچ ہزار سال سے زیادہ قدیم نہیں……
لیکن پانچ ہزار سال کی یہ تاریخ بھی مکمل صورت میں کہیں محفوظ نظر نہیں آتی……
حد تو یہ ہے کہ اگر ہم دو ہزار سال سے زیادہ کی بات کرتے ہیں تو اس پر بھی ہمیں قبلِ مسیح کا حوالہ دینا پڑتا ہے……
جب ہم دنیا میں رائج مختلف نظریات پر غور کرتے ہیں تو ہر نظریہ کسی دوسرے نظریے سے دست و گریباں نظر آتا ہے…… ہزاروں برس کی تاریخ میں صرف چند ہی نام ایسے ملتے ہیں جو نظریات کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہر نظریہ کچھ دور چل کر کسی دوسرے نظریہ کے سامنے اپنی شکست تسلیم کر لیتا ہے۔
تاریخ کا مطالعہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ہر زمانے میں ایجادات ہوتی رہی ہیں اور انہی ایجادات کی بنیاد پر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ دنیا نے بہت ’’ترقی‘‘ کر لی ہے…… لیکن پھر ایک دور ایسا آتا ہے کہ ’’ترقی‘‘ کی بنیاد بننے والی تمام ایجادات اس طرح کسی اَن دیکھے پردے میں چھپ جاتی ہیں کہ ان کا تذکرہ تو جاری رہتا ہے لیکن ان کا نام و نشان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا……
تفکر کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ ترقی بھی Repetitionکے علاوہ کچھ نہیں۔
کسی زمانے میں اللہ تعالیٰ کا عرفان رکھنے والے ایک نوجوان کے پاس حضرت خضر علیہ السلام تشریف لایا کرتے تھے…… اس بات کا تذکرہ جب اس دور کے بادشاہ کے سامنے ہوا تو بادشاہ نے اس نوجوان عارف کو اپنے دربار میں طلب کر لیا…… اور اس سے تنہائی میں دریافت کیا کہ تمہارے پاس کیا واقعی حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں؟……
نوجوان عارف نے جواب دیا…… جی ہاں…… یہ درست ہے!……
بادشاہ نے اس نوجوان سے فرمائش کی کہ اب اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کی مجھ سے بھی ملاقات کرانا…… اس نوجوان نے بادشاہ کی بات مان لی…… پھر جب حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے تو اس نے سارا قصہ ان کے سامنے بیان کر دیا…… حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا…… چلو اس کے پاس چلتے ہیں……
چنانچہ دونوں بادشاہ کے محل میں پہنچے…… بادشاہ نے دریافت کیا…… کیا آپ ہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں؟……
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا…… ہاں میں ہی ہوں!……
بادشاہ نے عرض کیا…… آپ نے قرن ہا قرن کا زمانہ دیکھا ہے، ہمیں کوئی عجیب و غریب قصہ سنایئے!……
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا…… میں نے دنیا میں بہت عجیب و غریب باتیں دیکھی ہیں…… لیکن میں ان میں سے ایک تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں…… لو سنو!……
ایک مرتبہ میرا گزر…… ایک بہت وسیع و عریض، خوبصورت، خوشحال اور آباد شہر سے ہوا…… میں نے اس شہر کے باشندے سے پوچھا…… بھائی! یہ شہر کب سے آباد ہے؟……
اس نے کہا…… یہ شہر تو بہت پرانا ہے…… اس کی ابتدا کا نہ تو مجھے کوئی علم ہے نہ میرے آباؤ اجداد کو…… خدا ہی جانے کب سے یہ شہر یونہی آباد چلا آ رہا ہے……
یہ جواب سننے کے بعد میں نے وہاں اپنا کام مکمل کیا اور آگے روانہ ہو گیا…… پھر میرا اس جگہ سے پانچ سو سال بعد گزر ہوا…… اب وہاں شہر کا نام و نشان تک نہ تھا…… ہر طرف جنگل و بیابان تھا…… بہت تلاش بسیار کے بعد ایک آدمی ملا جو سوکھی لکڑیاں چن رہا تھا…… میں نے اس سے پوچھا…… اس جگہ پر آباد شہر کب برباد ہوا؟…… میری بات سن کر وہ ہنسنے لگا…… بولا…… میاں! دیوانے ہوئے ہو کیا؟…… جنگل میں شہر تلاش کرتے ہو…… یہاں کب شہر تھا؟…… اس علاقے میں تو مدتوں سے گھنا جنگل موجود ہے…… بلکہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں بھی اس جگہ جنگل ہی تھا……
یہ سننے کے بعد میں آگے بڑھ گیا…… اور پھر میرا اس مقام سے پانچ سو سال بعد گزر ہوا…… اب کیا دیکھا کہ وہاں ایک بہت بڑا دریا بہہ رہا ہے، دریا اتنا بڑا تھا کہ اس کا دوسرا کنارا نظر نہ آتا تھا…… کنارے پر چند مچھیرے جال ڈالنے کی تیاری کر رہے تھے…… میں نے ان سے پوچھا…… یہاں تو ایک گھنا جنگل تھا! وہ کب ختم ہوا اور دریا کب سے بہنے لگا؟…… وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے…… ان میں سے ایک بولا…… صورت و شکل سے تو آپ معقول آدمی معلوم ہوتے ہیں لیکن عجیب سوال کر رہے ہیں…… یہاں تو ہمیشہ سے ہی دریا بہتا چلا آ رہا ہے……
میں نے پوچھا…… کیا یہاں پہلے جنگل نہیں تھا؟……
وہ کہنے لگے…… ہرگز نہیں!…… نہ ہم نے دیکھا نہ ہمارے بزرگوں نے اس بارے میں کچھ بتایا…… وہ بھی یہی کہتے تھے کہ یہاں ہمیشہ سے دریا بہہ رہا ہے……
پانچ سو سال بعد میرا اس خطے سے دوبارہ گزر ہوا…… اب وہاں لق و دق چٹیل میدان تھا…… ایک چرواہا مویشیوں کا ریوڑ ہانکتے ہوئے گزرا تو میں نے اس سے پوچھا…… بھائی! یہاں تند و تیز اور شوریدہ سر موجوں کے ساتھ ایک دریا بہتا تھا…… وہ کب خشک ہو گیا؟……
اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے میری عقل پر شبہ کر رہا ہو…… پھر بولا…… دریا؟ یہاں تو کبھی کوئی دریا نہ تھا…… ہمارے پرکھوں نے بھی کبھی کسی دریا کا ذکر نہیں کیا……
یہ سن کر میں وہاں سے آگے بڑھ گیا…… قدرت کی شان دیکھئے…… پانچ سو سال بعد پھر میرا اسی علاقے سے گزر ہوا…… اب دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا…… وہاں ایک عظیم الشان شہر آباد تھا…… یہ تو اس شہر سے بھی زیادہ خوبصورت وسیع و عریض اور خوشحال تھا جسے میں نے دو ہزار برس قبل دیکھا تھا……
میں نے حسب عادت ایک شخص سے پوچھا کہ یہ شہر کب سے آباد ہے؟…… اس نے کہا…… بزرگوار! یہ شہر بہت قدیم ہے…… یہ کب آباد ہوا؟ اس بارے میں حتمی طور پر ہمیں کچھ معلوم نہیں بلکہ ہماری پچھلی نسلیں بھی اس حوالے سے لا علم تھیں……
یہ قصہ سنا کر حضرت خضر علیہ السلام بادشاہ کے محل سے تشریف لے گئے……
یہ دنیا ایک طرف بقا ہے تو دوسری طرف فنا ہے…… ایک طرف فنا ہے تو دوسری طرف بقا ہے…… فنا و بقا کا یہ کھیل ریت کے گھروندے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا……
کہا جاتا ہے کہ دنیا سترہ بار ختم ہو کر دوبارہ آباد ہوئی ہے…… تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک معین وقت کے بعد (وہ معین وقت دس ہزار سال بھی ہو سکتا ہے) خشک زمین پر آباد دنیا تہہ آب آ جاتی ہے، شعور زمین کے اندر غاروں سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج جوان ہوتا ہے…… اور جیسے جیسے شعور جوانی کی دہلیز پر قدم بڑھاتا ہے، انسان ترقی یافتہ کہلاتا ہے…… لیکن یہ بات ہر زمانے میں موجود رہتی ہے کہ انسان شعوری تقاضے پورے کرتا ہے……
شعوری تقاضے کس طرح پورے کرتا ہے؟…… یہ ’’کس طرح‘‘ ہی ارتقا ہے!……
کسی زمانے میں انسان آگ کا استعمال سیکھ کر ترقی کرتا ہے اور کبھی لوہے کی دریافت ترقی کا ذریعہ بنتی ہے اور ارتقا کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان توانائی کے علم سے واقف ہو جائے……
غاروں کی زندگی کا دور ہو، دھات کی دریافت کا زمانہ ہو، آگ سے واقفیت ہو یا انسانی ذہن توانائی کے فارمولوں سے واقف ہو جائے، بہرحال انسان گھٹتا، بڑھتا، مٹتا اور فنا ہوتا رہتا ہے…… ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ جو لوگوں سے خراج وصول کرتے تھے جب زیر زمین دفن ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ جو خراج دیتے تھے اس زمین کو جس میں وہ دفن ہیں، پیروں سے روندتے پھرتے ہیں……
یہی وہ سربستہ راز ہے جس کو بتانے سمجھانے اور عام کرنے کیلئے قدرت روشن اور منور لوگوں کو دھرتی پر بھیجتی ہے اور دھرتی کے یہ روشن چراغ زمین پر بسنے والے لوگوں کو روشنی اور نور سے متعارف کراتے ہیں……

پیر، 4 فروری، 2019

فکرِاقبالؒ اور دینِ ابراہیم علیہ السلام


ملّت ِ ابراہیم علیہ سلام اور فکرِ اقبالؒ
تحریر : محمد ظہیر اقبال (جلال)

علامہ محمد اقبال ؒ کے فکر و فلسفے کی روشنی میں دینِ ابراہیمی ہی واحد راستہ ہے جو انسان کو معرآجِ تک پہنچا سکتا ہے۔ انسانیت کو جہالت کی تاریکیوں اور بُت پرستی جیسی لعنت سے نجات دلا کر اسے مسجود ملائک و اشرف لمخلوق ہونے کا درس دیتا ہے۔علامہ محمد اقبال ؒ کے کلام کوفقط شعر و سُخن سمجھ  لینا انتہائی درجے کی بے ذوقی ہے آپ کا کلام شاعری کے رنگ میں اُس آفاقی پیغام کی وضاحت و ترجمانی ہے جس کی ابتدا ابراہیم علیہ سلام کی کٹھن قربانیوں سے شروع ہو کر حضرت محمد ﷺ کی ختم ِ نبوت پر تکمیل ہوتی ہے۔

ابراہیم علیہ سلام کی پوری زندگی کُفر و شرک کے خلاف جہدِ مسلسل اور امتحانوں میں گزرتی ہے اور آخرِکار آپ کو اللہ تعالٰی امامت کی خِلت سے نوازتے ہیں ۔دینِ ابراہیمی صبر و استقامت اور قُربانیوں سے عبارت ہے۔بنی نو انسان میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی جیسی ابراہیم علیہ سلام نے اپنے رَبّ تعالٰی کے حکم کی بجا آوری و فرمابرداری اور تسلیم و رضا کےلئے  پیش فرمائی ۔بنی نو انسانیت کی امامت اور دینِ ابراہیمی کی بنیاد  درحقیقت کُفر و شرک اور بُت پرستی کے خاتمے کا علان ہے اور انسانیت کو ایک حقیقی اور ابدی زندگی کی طرف دعوت ہے کہ جہالت کے اندھیروں سے نِکل کر ایک خُدا ئے واحد کی رسی کو پکڑ لو اور ایک سجدہ کر کے ہزاروں سجدوں سے نجات حاصل کر لو۔

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے—صنم کدہ ہے جہاں لَا اِلٰہ اللہ
اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات بڑی بے نیاز ہے۔اُس کی شانِ بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ پوری کائینات کی تمام مخلوقات مل کر اُسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتیں اور اسی طر ح کُل کائینات کی ساری مخلوقات مل کر اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔اُس نے ہر ہر چیز کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہےاور پھر ان میں نفع و نقصان رکھ چھوڑا ہے۔وہ تنہا پوری کائینات کا خالق و مالک بھی ہے اور رازق بھی ہے۔اُس کا امر ہی اوّل و آخر پر غالب ہےوہی اوّل بھی ہے اور وہی آخر بھی ہے۔وہ واحدہ ھو لاشریک ہےاورشانِ صمدیت کے اظہارکےساتھ ساتھ اِنَ رَحمَتِی وَاسِعکا اعلان بھی فرما رہا ہے۔راہِ عشق سے کائینات کی تخلیق فرمائی اور اِک جہانِ کار زار وجود میں لایا۔ہرآن اِک نئی شان کے ساتھ عشق کے رموز و اسرار منکشف فرما کر اپنے خُدا و مَعبود ہونے کے مقصدِ حقیقی کی یاد دہانی کرا رہا ہے ۔خود اپنے بارے ارشاد فرمایا کہ وہ ہر وقت کام میں مصروف ہے ۔اُسے کوئی چیز نہیں تھکا سکتی۔ حضرت سُلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب عین الفقر میں تحریر فرمایا ہے کہ جب پہلے پہل اللہ تعالٰی کا اِرادہ بنا کہ پہچانا جاؤں تو اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے اپنے ذاتی نور کا اسم اللہ ذات میں ظہور فرمایا پھر اس نور سے آقائے نامدار کا نور ِ مبارک تخلیق فرمایا  اوْل  ما خلق اللہ نوری یا جابران اللہ تعالٰی خلق قبل ا لاشیاء نور نبیک من نورہ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے لفظ ِ کُن فرما کر اٹھارہ ہزار  عالم کی ارواح کو پیدا فرمایا اور اُن کو صف در صف کھڑا کیا اور انہیں اپنے ذاتی نور کا اسم اللہ ذات میں دیدار کرایا اور پھر چار ہزار سال بعد ان سے ایک سوال کیا الست بربکم ۔ کیا میں تمہارا رَبّ نہیں ہوں ؟ تمام ارواح نے بیک زبان ہو کر جواب دیا  قالو بلٰی شھد نا۔ بولے کیوں نہیں؟ ہم گواہ ہیں۔
حضرت سُلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی وہ موقع تھا جب اللہ تعالٰی نے انسان کے حقیقی مقصد ِ حیات کی نشاندہی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دیگر صفات کو چھوڑ کر صرف ایک ہی صفتِ رَبُوبیت کا اظہار فرمایا ۔رَبّ ہونے کا اظہار  ! رَبّ اللہ تعالٰی کا صفاتی اسم مبارک ہے اس کے معنی ہیں پالنے والا۔ہم سب کی روحوں سے پوچھنا یہ مقصود یہ تھا کہ اے روحو  ! کیا میں تمہیں پال رہا ہوں ؟پلنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہےہماری ارواح کون سی غذاپر پل رہیں تھیں؟اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہماری ارواح انوار و تجلیات کے مشاہدات  و ذکر اللہ سے پل رہی تھیں اور یہی ہماری روحوں کی غذا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالٰی نےاپنی امانت  اٹھارہ ہزار عالم کی ارواح پر پیش فرمائی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔
ترجمہ:بیشک ہم نے امانت فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اُٹھانے سے انکار کیااور اس سے ڈر گئے مگر آدمی نے اُٹھا  لی بیشک آدمی اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے میں بڑا نادان ہے۔(سواہ احذاب آیت 72)
صُفیااور مفسرین کرام فرماتے ہیں وہ امانت یہی اسم اللہ ذات ہے۔لہذا جب انسان نے اس امانت کو قبول کرنے کا وعدہ کے لیا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا اے انسان ! میری امانت پاک و طاہر ہے لہذا مَیں اسےپاک پردوں میں لپیٹ کر تیرے دل میں رکھ رہا ہوں اور اب تجھے ایک نیا جسم دوں گا ،نیا  جہان دوں گااور آزمائش کے لئے تین شکاری تیرے ساتھ لگا دوں گااب میں یہ دیکھتا ہوں کہ جب تو واپس میری بارگاہ میں لوٹ کر آتا ہے تو میری امانت صحیح سلامت واپس لوٹاتا ہے یا اسے وہیں ضائع کر کے آ جاتا ہے۔پس آج انسان نئے جسم کے ساتھ نئے جہان میں آیا بیٹھا ہے اور امانت الٰہیہ سینوں میں اٹھائے ہوئے ہے۔
·       حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :۔

اس پیکرے خاکی میں اِک شے ہے ،سو وہ تیری
میرے لئے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی

·       سُلطان العارفین حضرت سُطان باھو رحمتہ اللہ فرماتے ہیں

بَنھْ چَلا یا طرف زمین دے عَرشوں فَرش ٹِکایا ھو
گھر تِھیں مِلیادیس نَکالااَساں لِکھیاجھولی پایا ھو
اَسیں پَردیسی سَاڈا وطن دور اڈھا باھو دم دم غم سَوایا ھو

تین شکاری نفس ،شیطان اور دنیا ہیں۔ جو اس امانت الٰہیہ کو لوٹنے کے چکر میں ہر پل جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں ۔مسجود ِ ملائک کی تخلیقسے لے کر آج تک ہر انسان ان آزمائش کی گھڑیوں سے گزرتا آرہا ہے ۔جس نے مقصود ِ حقیقی کی طلب کی خاطر اِن دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ رہتی دنیا کے لئے تا قیامت امام اور رول ماڈل بن گئے اور جو ان دشمنوں کی مخالفت کی بجائے ان کے قیدی و اسیر ہو گئے وہ رہےی دنیا کے لئے عبرت بن کر وہ گئے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے بہت سے لوگوں کے حالات بیان فرمائے ہیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ سلام کے حالات ِ زندگی ملت ِ ابراہیمی کے ہر پیروکار کے لئے بہتریں نمونہ ہیں ۔ہر مسلمان کو چاہئے وہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کو اپنا امام اور رول ماڈل جان کر ان کے طریقے پر عمل پیرا ہو ۔
·       بقول حضرت علامہ محمد اقبال رحمتۃ اللہ

حنا بندِ عُروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تیری نسبت ابراہیمی ،معمارِ جہاں تو ہے

حضرت ابراہیم علیہ سلام اپنی ذات میں کامل مردِ حق اور  ایک  جہان   تھے۔آپ حکمت و عرفان کا منبع و سرچشمہ تھے کہ آپ  طالب کے لئے ایک مینارہ نور ہیں آپ کی حیات طیبہ کاایک ایک پہلوجدو جہد اور لاَ کی تلوار سے  مزین ہے ۔آپ اپنے عقیدے اور ایمان کی بدولت تمام معبودانِ باطل کا سَرقلم کرتے نظر آتے ہیں ۔آپ اپنے عقیدے اور دین ِحنیف پر اس طرح کار بند نظر آتے ہیں جس میں ایک رائی کے دانے برابر بھی شک و شبہ کو کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔آپ کاہر عمل آپ کے عاشقِ صادق ہونے کی دلیل ہے آپ عشق کے مظہر ہیں ایمان کی کُندن صورت عشق ہے اور عشق کی راہ پر چلنے والے کبھی ڈگمگاتے نہیں ہیں  بلکہ ایک لمحے میں وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جو عقل و علم اور ایمان کو حاصل کرنے کے لئے زمانے لگ جاتے ہیں۔یعنی "جس منزل تے عشق پُہنچاوے  ایمان نو خبر نہ کوئی ھو"حضرت ابراہیم علیہ سلام نے بچپن میں ہی لاَاِلٰہ الا اللہ کا سبق  پکا بھی لیا تھا اور اس کا عملی مظاہراہ  بُتوں کے سر اور گردنیں توڑ کر کر دیا تھا۔آپ بچپن سے ہی  رَبّ کے پرستار اور ماننے والے تھے۔بندہ جب تک تمام الٰہ کی نفی نہیں کرتا اُس وقت تک وہ اللہ تعالٰی کا قُرب اور معرفت حاصل نہیں کر سکتا ۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ  ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًاO(سورہ الفرقان آیات 43)
ترجمہ: کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو۔

یہ لمحہ ِ فکر ہے آج کے مسلمان کے لئے  جو نفسانی خواہشات کے پیچھے لگ گیا ہے ۔مسلمان کا دنیا میں یہ کام نہیں ہے نہ ہی ابراہیم علیہ سلام کا یہ طریقہ تھا ۔وہ تو خالص ایک خُدا کے حکم کو ماننے والے تھے ۔خواہشات کے پیچھے بھگنا تو کافر و مشرک کا عقیدہ اور کام ہے ۔جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر کفر کے پیچھے دوڑتے ہیں تووہ جان رکھیں کہ تو کفر ہمیشہ ضلالت کی طرف لے جانے والا ہے جبکہ جو لوگ اللہ تعالٰی کی جانب دوڑتے ہیں فرمایا دوڑو اللہ کی جانب کہ یہی سیدھا راستہ ہے اور اللہ کا راستہ تمہارے لئے عشق و معرفت کی منزلیں طے کرنا آسان کر دے گا درحقیقت لاالٰہ کا راستہ عشق کا راستہ ہے اورعشق کے سامنے کوئی نفسانی خواہش کھڑی نہیں ہو سکتی عشق  وہ قوت ہے جس سے ہر پست کو بالا کیا جا سکتا ہے ۔عشق وہ یقین ہے جو مقصودِ حقیقی کے سوا ہر چیز کو جلا دیتا ہے عشق ہی بقا ء حقیقی سے روشناس کرانے والا ہے۔
·       حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐسے اُجالا کر دے

جاری ہے۔۔۔



بدھ، 21 نومبر، 2018

موت اور زندگی

فلسفہِ زندگی و موت

( از روئے حدیث پاک  و قرآنِ حکیم )
کہہ گئے ہیں شاعری جز و یست از پیغمبری
ہاں سُنا دے محفلِ ملت کو پیغام سروش

اس کائینات میں انسانی زندگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔چونکہ انسانی زندگی کا مقصدِ عظیم بہت بڑا ہے لہذا انسان کی زندگی و موت کا مفہوم بھی بہت ہی وسیع و بالا ہے ۔یعنی اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ کائینات کے اندر ذرے ذرے میں پائے جانے والی زندگی اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کےبعد مر جاتی یا مردہ ہو جاتی ہے ۔لیکن اگر انسان نے اپنے مقصد ِ زندگی کی تکمیل کر لی تو یہ مر کر حیاتِ ابدی یا حیاتِ جاوید کا مالک بن جاتا ہے ۔اور اس کے برعکس اگر انسان نے اپنے مقصدِ زندگی کو حاصل نہ کیا تو اس کی زندگی زندگی نہیں مردہ ہے ایک ایسا مُردہ جو چل پھر رہاہوجو نہ خود پر کوئی اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے لئے کسی طور نفع بخش ہو سکتا ہے۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں

تجھے معلوم ہے غافل ! کہ تیری زندگی کیا ہے ، کشتی ساز معمور ِ نوا  ہائے کلیم
قلزِم ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ احباب

سلطان عبدلحمید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پائے تخت تُرک سُلطان  عبدالحمید

سُلطان  عبدلحمید پایہ تخت میں موجود ہیں اور ایک خادم آپ کو اطلاع دیتا ہے کہ ایک معزز یہودی تاجر آپ سے ملاقات کے لئے باریابی کی اجازت چاہتاہے۔سلطان عبدلحمید اجازت دیتے ہیں ۔یہودی کوسلطان عبدلحمید کے سامنے لا کھڑا کیا جاتا ہے ۔ یہودی انتہائی ادب اور عاجزانہ سلام پیش کرتا ہے لیکن سلطان کے چہرے کا جلال و جمال اور آنکھوں سے نکلتے انگارے یہودی پر اِک دہشت طاری کر دیتے ہیں اور وہ انتہائی عاجزی سے اُمیدو خوف کے ملے جلے انداز سے ساتھ آنے والے تُرک تحسین پاشا کی جانب دیکھتا ہے۔تحسین پاشا گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خُدا حضور کا اقبال بلند رکھے اور صحت مند رکھے  واللہ ہم حضؤر کے منتظر تھے اور ساتھ ہی یہودی کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے سُلطان !یہ جناب برزل ۔ یہودی دوبارہ جُک جاتا ہے ۔تب سلطان فرماتے ہیں کہ برزل اپنی مُراد بیان کرو۔ یہودی انتہائی خوف کے عالم میں با مشکل کہتا ہے کہ زمین کا درخواست گزار ہوں۔یعنی قدس (یروشلم ) میں یہودیوں کے لئے زمین کا درخواست گزار ہوں۔

یہودی کے یہ الفاظ سُن کر سُلطان کے چہرے کا رنگ سرخ گل لالہ کی طرح ہو جاتا ہے اور پیشانی اور آنکھوں سے جیسے طوفان اُمڈ کر یہودی کو پاش پاش کر دے گا ۔یہودی فوراً بولتا ہے عثمانیوں کے پاس ایک عطیم سلطنت ہے۔جبکہ یہودی روس اور رومانیہ میں بُرے حال میں ہیں۔یہودیوں کے لئے تجارت پر پابندی ہے زمین بھی خرید نہیں سکتے ۔ ائے سلطان عثمانی سلطنت  کے علاوہ ہر جگہ ان کے حقوق چھین لیے گئے ہیں ۔

سُلطان عبدلحمید یہودی کی چلاکی و مکاری بھانپتے ہوئے فرماتے ہیں ”تو تم اس حقیقت کے بارے میں اپنے اخبار میں کیوں نہیں لکھتے؟اس کے برعکس تم تو عثمانیوں پر یہودیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا الزام لگاتے ہو۔ یہودی ایک بار پھر مکارانہ انداز سے جواب دیتا ہے کہ ان تمام خبروں کے پیچھے سیاسی مسئلے ہوتے ہیں۔اگر آپ راضی ہو جائیں تو ہر شے بد ل جائے گی۔ہمیں  فلسطین میں زمین دے دیجیےہمارے وطن کے لئے اور آپ کو تو معلوم ہی ہے مادی معاملات میں یہودی بہت مضبوط ہیں ۔ آپ کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ہم عثمانی سلطنت کا تمام یورپی قرضہ اتار دیں گے۔میں آپ سے بس یہ عنائت چاہتا ہوں کہ۔۔القدس میں خاطرخواہ زمین ہمیں فروخت کر دیجیے۔

سُلطان عبدلحمید انتہائی جلال میں آ جاتے ہیں اور اپنی لاٹھی زمین پر زور دار مارتے ہیں اور  آنکھوں میں  آگ و خون کی سی جھلک لیے با وقار انداز میں فرماتے ہیں ”یہ زمین برائے فروخت نہیں ہے۔یہ زمین میری نہیں میری ملت کی ہے ۔میری ملت کا خون اس زمین  میں شامل ہے۔یہ زمین کسی اور کے پاس جانے سے پہلے ایک بار پھر ہمارے خون سے بھرجائے گی۔میرے شامی اور فلسطینی فوجی دستے کے سپاہی اس سر زمین کے لئے شہید ہوئے ہیں۔کیا وہ لوگ واپس آ سکتے ہیں جنہوں نے اس زمین کو اپنے خون سے سینچا؟ دولتِ عالیہ (ریاست) میری نہیں ملت کی ملکیت ہے۔میں اس زمین کا کوئی ٹکڑا کسی کو نہیں دے سکتا۔ہماری لاشیں گرانے کے بعد ہی اس زمین کی تقسیم ہو سکتی ہے۔جب تک بدن میں جان ہے میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔میں قدس میں ایک صیہونی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے سکتا۔یہودی اب پینترا بدلتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے ۔بلکہ ہم عثمانیوں کی امن پسند رعایا کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں۔سُلطان یہودی کے اس جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے ایک تصویری خاکہ پاشا کی جانب بڑھاتے ہیں کہ دیکھاؤ اسے تصویر دیکھتے ہی یہودی کا رنگ اُڑ جاتا ہے لیکن دوسرے لمحے ہی سُلطان کہتے ہیں کہ یہ چھ کونوں والا داؤدی ستارہ  اس کے اوپر اور نیچے نیلی لائنیں ۔۔۔ یہودی فوراً بولتا ہے کہ یہ محض اشارے ہیں ۔ان کا کوئی معنی نہیں    ۔معنی بھول گئے ہیں تو میں یاد کروا دیتا ہوں برزل نیل سے فرات تک کا علاقہ۔۔اس جھنڈے پر ظاہر کیا گیا ہے ۔تم لوگوں کی خواہش ۔۔۔ارضِ موعود کے قیام کا اعلان کرنا ہے۔نیل سے فرات تک صیہونی  سلطنت کا نعرہ ہے جو تم لوگ قائم کرنا چاہتے ہو۔مگر میں ابھی زندہ ہوں اور جب تک میں زندہ ہوں یہ ریاست قائم نہیں ہو سکتی ۔یہ ہے میرا فیصلہ !نکل جاؤ  دفع ہو جاؤ ، اسی وقت میری آنکھوں کے سامنے سے۔
جلال  ؔ

نظام کی تبدیلی

نظام کی تبدیلی

کیا آپ جانتے ہیں کہ مکہ کے تمام سردار بشمول ابو جہل سبھی الیکٹبلز تھے ۔ جنہوں نے نبیِ کریم ﷺ کو آفر کی تھی کہ آپؐ ﷺ ان کے سردار بن جائیں لیکن نبیِ کریم ﷺ نے ان کی یہ آفر قبول نہ کی اگر صرف لیڈر ٹھیک ہونے سے سب ٹھیک ہو جایا کرتا یا ہوا کرتا تو نبیِ کریم ﷺ ان قریش کے سرداروں کی یہ آفر قبول کر لیتے  لیکن آپؐﷺ نے ایسا نہیں کیا ۔کیونکہ ایک تو آپؐﷺ کا یہ مقصد نہیں تھا  یعنی آپؐ ﷺ سرادری کے طلبگار نہ تھے  بلکہ یہ کام تو آپؐ ﷺ کے مقصد اور نظریہ سے بلکل ایک   متضادچیز تھی جس سے نظام میں کوئی بہتری نہیں لائی جا سکتی تھی اور نہ ہی اس نظام کو بدلا جا سکتا تھا۔تو نبی ِ کریم ﷺ کا یہ طریقہ اور سنت نہیں ہے۔دوسری اہم بات جو صاف اور واضع ہو کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ ایک تو چوروں اور ظالموں پر حکومت اور سرداری کرناان کا ساتھ دینے جیسا ہی ہے ۔اور اس سے بھی اہم بات یہ کے اس طریقے سے کسی نظام میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ہاں البتہ لو گوں کو بے واقوف بنا کر دھوکا ضرور دیا جا سکتا ہے۔

تحریر : محمد ظہیر اقبال

امریکا جنگ ہار چکا ہے


امریکا  افغانستان کی جنگ ہار چُکا ہے

Re-post
تحریر۔محمد ظہیر اقبال
29 اکتوبر 2017ء
امریکا افغانستان میں شکست کھا چُکا ہے۔نئی امریکی حکومت اب افغانستان میں وہی کھیل شروع کر رہی ہے جو پہلے عراق اور شام میں کھیل چُکی ہے۔امریکی پالیسی ایک جانب کابل حکومت کی پشت پر کھڑی ہے تو دوسری جانب داعش کی پشت پنائی کرتے ہوئے اسے افغانستان میں داخل کر رہی ہے۔یہ پالیسی جہاں ایک طرف طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لئے ہے تو وہیں دوسری جانب پاکستان کو  دباؤ میں لینے کے لئےبھی ہے۔اس پالیسی کو اب پاکستان کے دو ٹوک  جواب کےبعد مزید متحرک کر دیا گیا ہے۔چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں دئش کے جھنڈے دیکھے گئے ہیں۔
امریکا کی افغان پالیسی  حقائق کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی  پالیسی ہے جس سے خود امریکہ ایک بار پھر شکست و تبائی کی جانب بڑ رہا ہے۔انڈیا افغانستان میں قیامت روز تک بھی کوئی حقیقی کامیابی اور کردار ادا نہیں کر سکتا ۔اس بات کا ادراک انڈین فوج اور حکومت دونوں کو ہے اس کے باوجود انڈیا امریکہ کی افغان پالیسی کے تحت افغانستان میں رہنا چاہتا ہے کیونکہ اس طرح انڈیا کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں مداخلت کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے جیسا کہ پچھلے دنوں بلوچستان میں اس کا جاسوس پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے۔یہ حقائق میں سے ایک مثال ہے جو پوری دنیا کے سامنے ہے۔
امریکا خطے میں مستقل قیام کے لئے کابل کے اطراف میں طویل قیام کی غرض سے فوجی اڈے بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کے لئے بھاری مشنری اور آلات ان علاقوں میں پہنچا رہا ہے۔

امریکی پالیسی کے نتیجے میں خطے کے حالات:۔

افغانستان پچھلی کئی دائیوں سے مسلسل جارحیت کی زد میں ہے اب تک لاکھوں انسان لقمہِ اجل بن چُکے ہیں۔خاص طور پر 9-11 کے  خود ساختہ حملوں کو جواز بنا کر جب سے امریکا نے افغانستان پر حملے کرنے شروع کئے اور بعدازاں اپنی افواج کو افغانستان میں داخل کیا ہے افغانستان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ جنگ اب ایک ایسی سطح پر پہنچ چُکی ہے جوہر  آنے والے دن میں امریکا کے لئے مشکلات کا ایک نیا دروازہ کھولتی جا رہی ہے۔امریکا بیک وقت دو مختلف اور بلکل ایک دوسرے کی مخالف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ایک طرف امریکی حکومت افغانستان میں امن کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب دئش جیسی بدنامِ زمانہ تنظیم کو بھی افغان سر زمین پر در پردہ داخل کر رہی ہے۔یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں امن کی بات کرنا کسی سنجیدہ طرزِ عمل کی نشاندہی نہیں ہو سکتی۔ ان حالات میں کرزائی کا یہ کہنا کہ امریکا افغانستان میں دئش کو نہ صرف ہوا دے رہا ہے بلکہ اپنے جہازوں میں لا کر افغان سر زمین میں داخل بھی کر رہا ہے ایک انتہائی قابل غور امر ہے۔دنیا کے تمام سنجیدہ حلقے اس دوغلی پالیسی کو انتہائی حیرانگی سے دیکھ رہے ہیں۔خطے کی بڑی طاقتیں اس کھلی جاحیت کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہیں۔روس اور چین کی مشترکہ فوجی مشکیں اسی تناظر میں دیکھی جا رہی ہیں۔ امریکا پاکستان سے ڈو مور کی بات کر کے ایک دفعہ پھر اپنی ناکامیوں کو پاکستان کے سر تھوپ کر اسے جنگ میں شامل کرنا چاہتا ہے تاکہ ایک دفعہ پھر سے پاکستانی علاقوں تک اس جنگ کو پھیلا کر اس بات کا جواز پیدا کر سکے کے باڈر کے اُس پار سے مداخلت ہو رہی ہے اور اسی دوران دئش کو پاکستانی سر زمین میں داخل کر سکے۔دئش کو افغانستان میں خفیہ امریکی سر پرستی کے پیچھے یہی منصوبہ بندی کار فرما ہے۔ امریکی پالیسی کا یہ خفیہ پہلو پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہے۔دئش کو پاکستان میں داخل کرنا اس وقت امریکی خفیہ پالیسی میں انتہائی اہم مشن کے طور پر لیا جا رہا ہے۔پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں دئش کے جھنڈوں کا راتوں رات چند عوامی مقامات پر لگ جانا اسی پالیسی کا حصہ ہو سکتا ہے۔پاکستانی سیاست میں سیاستدانوں کی اس بارے خاموشی بہت سے شکوک و شبات کی جانب اشارہ  کررہی ہے۔پاکستان کو اس وقت اندرونی اور بیرونی سطح پر چوکس رہنے کی انتہائی ضرورت ہے۔خود پاکستانی وزیرِخارجہ کچھ ایسے ہی حالات کی جانب اشارہ کر چُکے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت انتہائی خطرناک سازشوں کا سامنا ہے ۔ان حالات میں امریکا کا  پاکستان پر ڈو مور کا دباؤ ڈالنا ساری حقیقت کو واضع طور پر سمجھنے کے لئے کافی ہے۔امریکا کادہشت گردی کے خلاف  پاکستانی کردار اور قربانیوں کو تسلیم نہ کرنا اور امریکی حکومت کا پاکستان کے خلاف دھمکی امیز رویہ جہاں پاکستان کے لئے حیران کن ہے وہیں  از خود اس ساری کہانی کو بیان کر رہا ہے۔ایسا لگتا امریکی  اپنے سوا باقی دنیا کو بےواقوف خیال کرتے ہیں یا  پھر خود بےواقوف ہیں ۔پاکستان جس نے امریکی مفادات کی خاطر اپنے ذاتی مفادات کو بھینٹ چڑھا کرہر سطح پر امریکا  کا ساتھ دیا آج اسی پاکستان کو امریکی صدر کی دھمکیا ں سمجھ سے بالا تر ہیں۔کیا یہ وہی پاکستان نہیں ہے جس نے مشرف دور میں ہر طرح کی قربانی دیتے ہوئے امریکا کا ساتھ دیا تھا۔پاکستان جس نے اس جنگ میں  اپنےبہت سے  سول اور عسکری  لوگوں کی جان کی قربانیاں دی ہیں اور ایک طویل اپریشن کر کے اپنے علاقوں سے ہر طرح کی دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کیا ہے اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پاکستان کس قدر امریکا کے ساتھ سنجیدہ تعلقات چاہتا تھا ۔لیکن افسوس امریکی پالیسی سازوں نے پاکستانی کردار و قربانیوں کو یکسر فراموش کر دیا اور ایک ایسی پالیسی کو ترتیب دیا جس میں پاکستان سے ہی ڈو مور کا مطالبہ دوہرایا گیا ہےجو کسی طور درست ترزِعمل نہیں کہا جا سکتا۔افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کس طرح پاکستان پر ڈالی جا سکتی ہے یہ بات انتہائی حیران کن ہے۔کیا افغانستان میں پاکستانی افواج اس جنگ کی کمان کر رہی ہیں؟کیا امریکی پالیسیوں کو پاکستان نے بنایا ہے ؟یا امریکی پالیسیوں کو کامیاب کرنا پاکستان کی ذمہ داری تھی جو اس نے پوری نہیں کی۔انتہائی احمقانہ اور غیر ذمے دارانہ الزامات پاکستان پر لگا کر امریکا اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔طالبان یا کسی دوسرے گرو کا اپنے ملک کا دفاع کرنا افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے جس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے ہاں البتہ بھارت اس سلسلے میں امریکا کے ساتھ افغانستان کے اندر ایک پارٹنر کا کردار ادا کر رہا ہے ۔حالانکہ پاکستان کو بھارت کے اس طرح کے کردار پر اعتراز تھا کیونکہ بھارت پاکستانی علاقوں میں برائے راست دہشت گردی کا مرتکب پایا گیا تھا جس کے ہزاروں ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر بھارت کے حاضر سروس نیوی آفیسر کا پاکستانی علاقے سے گرفتار ہونا اور پاکستان میں دہشتگردی کی کاروایوں کو تسلیم کرنا ہے۔گلبوشن یادیو کے بیانات رکارڈ پر موجود ہیں جو پوری دنیا کے سامنے ہیں۔عالمی برادری اس سلسلے میں پاکستان کی حمایت میں ہر طرح ساتھ دینے کے لئے تیار ہے۔اس کے باوجود پاکستان پر الزام تراشی کرنا اور ڈومور کا کہنا کسی طرح بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔
ذیل میں چند انٹرنیشنل میڈیا  کے کالم اور تجزئے  انگریزی زبان میں من و عن پیش کئے جا رہے ہیں۔ جو افغانستان میں امریکی پالیسیوں اور امریکا کی شکست  اور امریکی حکومت کی  بکھلاہٹ کی عکاسی پیش کر تی ہیں۔

Reference
Why couldn't the U.S. Armed Forces win against the Taliban?
Chris Everett, An American all my life
Answered Mar 25, 2015 • Up voted by Marc Bodnick
Define what winning in Afghanistan looks like...

I mean, on a real, tactical level.  What conditions must be met for "victory"?
Can you answer that?  I can't.  Neither can senior US leadership.
However, for the Taliban, winning is simply preventing the US from winning.  That's infinitely easier.
If our mission in Afghanistan was "Destroy Al-Qaeda's ability to operate internationally, and kill OBL, we probably would have won within a year. But that was never the mission...  No, we needed to "Bring peace, democracy, freedom, and Coke-a-Cola to the people of Afghanistan". 
We wanted the Afghan people to LIKE us.  Even though we were, you know, invading their country.  You might be the nicest guy in the world, but if you're hanging out in my living room and won't leave, I won't like you very much.
You need to have achievable goals.  In life, in business, and in the military.  We didn't have that.  The Taliban did.
Another Reference.
Why we aren’t ‘winning’ in Afghanistan
 By Aaron B. O'Connell August 102017-
Aaron B. O’Connell is associate professor of history at the University of Texas at Austin and the editor of “Our Latest Longest War: Losing Hearts and Minds in Afghanistan.”
President Trump has reportedly been asking two questions about Afghanistan: Why has the United States been there for so long? And why haven’t we won the war? Afghanistan is complex and confusing but the answers to these two questions are not. Unfortunately, answering them won’t get the president much closer to an effective Afghanistan policy.
The United States is still in Afghanistan because the Kabul government can’t defeat or delegitimize the Taliban on its own, and because both previous presidents believed that a complete withdrawal might destabilize Pakistan — the only state in the world with nuclear weapons and a large and increasingly radicalized Muslim population.
The United States isn’t winning now – and hasn’t been winning for more than a decade — because the insurgency has home field advantages that U.S. and coalition partners have been unable to counter, even after we spent over $100 billion per year to flood the country with 140,000 troops.
The Taliban have everything they need to fight indefinitely: money from opium, weapons from previous wars, local networks for intimidating detractors, sanctuaries in Pakistan, and an almost unlimited supply of new recruits from rural Pashtun areas whose life narratives start and end with defending Islam and rejecting foreign rule. They also have a degree of strategic patience that the United States will never match. There’s an old Pashtun saying: “I took my revenge after one hundred years and I only regret that I acted in haste.” Neither 4,000 nor 40,000 more troops will change these basic facts.
Crafting good Afghanistan policy starts with asking good questions. “Why aren’t we winning?” isn’t one. For starters, the war isn’t ours to win; it is part of an intra-Pashtun tribal conflict that precedes Afghanistan’s founding in 1747.
Furthermore, the U.S. military can’t “win” in Afghanistan because its goals are not exclusively military. Outside military forces will not win the Afghans’ hearts and minds, make the government legitimate, or change ordinary Afghans’ stories about their leaders, communities, histories, or the law. In fact, America’s militarized approach has actually diminished Kabul’s legitimacy because the mere presence of foreign troops fuels narratives of crusaders and colonialists.
This over-reliance on military power has only increased since Trump took office. Thus far, the president’s only actions on the war have been to delegate Afghanistan policy to the secretary of defense and to trumpet the dropping of the “mother of all bombs” — the largest non-nuclear bomb in the U.S. arsenal.
All experts agree that the Afghan war will end in a negotiated settlement rather than a military victory, yet the president is seeking massive cuts to the State Department that would presumably do the negotiating. More than six months into the Trump presidency, there still is no U.S. ambassador in Kabul or assistant secretary of state for South and Central Asia. Diplomacy isn’t just undervalued in Afghanistan; it’s absent.
Instead of seeking a final military victory over the Taliban, the president should pursue a strategy that manages the region’s transnational terrorism threats while protecting broader interests in a neighborhood that includes Pakistan, Iran, India and China. Doing so would take into account what has worked well in Afghanistan (selective counterterrorism strikes, health and education spending) and what has not (anti-corruption programs, counter-narcotics and contractor-led training of the army and police.) The strategy could involve surging or withdrawing troops, but it would recognize that the only core interests in Afghanistan are to cripple al-Qaeda and the Islamic State and prevent a Taliban return to Kabul.
Taking a regional approach would also prompt a reevaluation of the U.S. relationship with Pakistan, a country that barely shares our values, harbored Osama bin Laden and continues to support terrorist networks that kill Americans. We should also explore a stronger partnership with India — the world’s largest democracy and a far better security partner for countering a rising China. And the White House must recognize that NATO, the U.N. and human rights-centered diplomacy are assets – not obstacles – for maintaining the United States’ position in the world.
Before any diplomatic solution can take effect, however, the White House needs to stop muddying the waters with nonsense. The proposal to replace U.S. troops with mercenary contractors is an amateurish suggestion by novices who would sacrifice America’s reputation for a few dollars and fuel animosity among even the most pro-American members of the Afghan government. The president’s statements about monopolizing Afghanistan’s mineral wealth are equally unhelpful.
There are still some adults in the Trump administration, and they need to move the president away from the false choice of either bombing his way to victory or undertaking a precipitous withdrawal. Those aren’t the only choices and troops aren’t the only tool.

ایسے ہزاروں تجزیے اور تبصرے پوری دنیا کی جانب سے نیٹ کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔جن میں زیادہ تر خود امریکی تجزیہ نگاروں اور عام لوگوں کی جانب سے مختلف تبصرے  دیکھے جا سکتے ہیں۔قیصہ مختصر یہ  ہےکہ امریکا کو اپنی پالیسیوں اور ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے افغانستان میں ایک مثبت اور جامع پالیسی پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت تھی جس پر امریکی انتظامیہ نے شروع دن سے توجہ دینے کی بجائے پاکستان کو پہلے "ڈو مور" اور  شکست کے بعد پاکستان کو اپنی شکست کا ذمہ دار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ امریکی شکست کا زمہ دار خود امریکا ہی ہے۔اگر امریکا نے اپنے طرزِ عمل پر غور نہیں کیا تو یہ بات کہنے میں کوئی دقیق نہیں ہے کہ امریکا مستقبل قریب میں افغانستان میں مزید بہت زیادہ  نقصان اُٹھانے کے لئے تیار رہے جو کسی طورپر  امریکی عوام کے لئے ایک اچھی خبر نہیں ہو سکتی ۔امریکی معیشت اور خود امریکی بقاء کے لئے بھی اس طرح کی غیر سنجیدہ پالیسیاں اور  ڈبل سٹینڈرڈ قسم کا کردار انتہائی مہلک ثابت ہو گا۔آج دنیا ایک بلکل نئے اور مختلف حالات میں داخل ہو چُکی ہے ۔پوری دنیا میں نئے معاہدے ہو رہے ہیں ہر ملک ان حالات میں اپنی دفاعی اور معاشی حکمت عملی کو سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے ۔روس دوبارہ اپنی طاقت کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہے روس اپنی گزشتہ غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ چکا ہے اور پھر سے ایک نئے عزم کے ساتھ دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔دوسری جانب چین جو خطے کا ایک بڑا ملک ہے اپنی تیز رفتار ترقی کے ساتھ اپنی اہمیت کا احساس دلا رہا ہے ۔چین جس کے پاس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فوج اور امریکا سےبڑی اپریشنل فائیٹر جیٹ جہازوں کے ساتھ ائیر فورس ہے کسی طرح نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔چین اپنی سلامتی اور بقاء سے کیسے بے خبر رہ سکتا ہے جبکہ امریکی افواج اُس کے پڑوس میں بیٹھی ہیں ۔ان حالات میں امریکا کو اپنی ذمہ داریوں کا پہلے سے زیادہ احساس اور ادراک ہونا چاہے ۔امریکی پالیسی سازوں نے پوری دنیا کو اپنے ہی ہاتھوں اپنا دشمن بنا رکھا ہے اور پوری دنیا آج امریکا کے اس طرزِ عمل کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔امریکی عوام اپنی حکومت اور فوج کی غیر سنجیدہ پالیسیوں پر اگر سوئی رہی تو وہ دن دور نہیں جب سوؤیت یونین کی طرح امریکا بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گا ۔روس دوبارہ اپنی طاقت اور اہمیت کے ساتھ اس لئے کھڑا ہو گیا ہے کیونکہ روس نے ساری دنیا کو اپنی طاقت اور اپنی پالیسیوں سے تنگ نہیں کیا تھا روس نے صرف افغانستان پر حملے کی غلطی کی تھی جبکہ امریکا بہادر نے ایک طرف پوری دنیا میں مداخلت کی پالیسی سے پوری دنیا کو اپنا دشمن بنا رکھا ہے تو دوسری طرف افغانستان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی مشکلات میں خود اپنی ہی پالیسیوں کی وجہ سے اضافہ کرتا جا رہا ہے۔دنیا اس دلچسپ تماشے کے ڈراپ سین کا شددت سے انتظار کر رہی ہے۔کیونکہ آج کی پل پل بدلتی دنیا میں یہ اب کو ئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے۔ویسے بھی امریکی پالیسیاں ہی امریکی خاتمے کے لئے کافی ہیں۔