جمعرات، 7 مئی، 2020

عمل اور نیّت

عمل اور نیّت
جلالؔ

برائی یا بھلائی کا جہاں تک تعلّق ہے، کوئی عمَل دنیا میں بُرا ہے نہ اچھا ہے۔ دراصل کسی عمَل میں معانی پہنانا، اچھائی یا برائی ہے۔ معانی پہنانے سے مراد نیت ہے۔ عمَل کرنے سے پہلے انسان کی نیت میں جو کچھ ہوتا ہے وہی خیر یا شر ہے۔
آگ کا کام جلا نا ہے ایک آدمی لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے آگ کو کھانا پکانے میں استعمال کرتا ہے تو یہ عمَل خیر ہے۔ وہی آدمی اس آگ سے لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالتا ہے تو یہ برائی ہے۔
جن قوموں سے ہم مرعوب ہیں اور جن قوموں کے ہم دستِ نگر ہیں، اُن کی طرزِ فکر کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سورج کی طرح رَوشن ہے کہ سائنس کی ساری ترقی کا زور اس بات پر ہے کہ ایک قوم اقتدار حاصِل کرے اور ساری نَوعِ انسانی اس کی غلام بن جائے…. یا ایجادات سے اتنے ما لی فوائد حاصِل کئے جائیں کہ زمین پر ایک مخصوص قوم یا مخصوص ملک مال دار ہو جائے اور نَوعِ انسانی غریب اور مَفلوکُ الحال بن جائے…. کیونکہ اس ترقی میں اللہ کے ذہن کے مطابق نَوعِ انسانی کی فلاح مُضمِر نہیں ہے اس لئے یہ ساری ترقی نَوعِ انسانی کیلئے اور خود اُن قوموں کیلئے جنہوں نے جدّوجہد اور کوشش کے بعد نئی نئی ایجادات کی ہیں، مصیبت اور پریشانی بن گئی ہے۔ مصیبت اور یہ پریشانی ایک روز اَدبار بن کر زمین کو جہنم بنا دے گی۔
جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا مَوجود ہونا یا چیزوں کا عدم میں چلے جانا اللہ کی طرف سے ہے، اس وقت تک ذہن کی مَرکزیت قائم رہتی ہے اور جب یہ یقین غیر مستحکم ہو کر ٹُوٹ جاتا ہے تو آدمی ایسے عقیدے اور ایسے وسوسوں میں گرفتار ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ ذہنی اِنتشار ہوتا ہے، پریشانی ہوتی ہے، غم اور خوف ہوتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ بات با لکل سامنے کی ہے کہ انسان کا ہر عمَل، ہر فعل، ہر حرکت کسی ایسی ہستی کے تابع ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ ماں کے پیٹ میں بچے کا قیام، نَو مہینے تک نشونما کے لیے غذا کی فراہمی، پیدا ہونے سے پہلے ماں کے سینے میں دودھ، پیدائش کے بعد دودھ کی فرا ہمی، دودھ کی غذائیت سے ایک اعتدال اور توازن کے ساتھ بچے کا بڑھنا، چھوٹے سے بچے کا بڑھ کر سات فٹ تک ہو جانا، جوانی کے تقاضے، ان تقاضوں کی تکمیل میں وسائل کی تکمیل، وسائل فراہم ہونے سے پہلے وسائل کی مَوجودگی۔ اگر اللہ زمین کو منع کر دے کہ وہ کھیتیاں نہ اُگائے تو حصولِ رزق مَفقود ہو جائے گا۔ شادی کے بعدوالدین کے دل میں یہ تقاضا کہ ہمارا کوئی نام لینے والا ہو، اس درجے میں اِنتہائی درجہ شدّت اور اس کے نتیجے میں ماں باپ بننا، ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبّت پیدا ہونا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اللہ والدین کے دل میں محبّت نہ ڈالے تو اولاد کی پرورش کیسے ہو سکتی ہے؟ اولاد کی پرورش کیلئے ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبّت صرف آدمیوں کیلئے مخصوص نہیں بلکہ یہ جذبہ اللہ کی ہر مخلوق میں مُشترَک ہے اور اسی محبّت کے سہارے ماں باپ اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ نگہداشت کرتے ہیں اور ان کیلئے وسائل فراہم کرتے ہیں۔