بدھ، 21 نومبر، 2018

سلطان عبدلحمید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پائے تخت تُرک سُلطان  عبدالحمید

سُلطان  عبدلحمید پایہ تخت میں موجود ہیں اور ایک خادم آپ کو اطلاع دیتا ہے کہ ایک معزز یہودی تاجر آپ سے ملاقات کے لئے باریابی کی اجازت چاہتاہے۔سلطان عبدلحمید اجازت دیتے ہیں ۔یہودی کوسلطان عبدلحمید کے سامنے لا کھڑا کیا جاتا ہے ۔ یہودی انتہائی ادب اور عاجزانہ سلام پیش کرتا ہے لیکن سلطان کے چہرے کا جلال و جمال اور آنکھوں سے نکلتے انگارے یہودی پر اِک دہشت طاری کر دیتے ہیں اور وہ انتہائی عاجزی سے اُمیدو خوف کے ملے جلے انداز سے ساتھ آنے والے تُرک تحسین پاشا کی جانب دیکھتا ہے۔تحسین پاشا گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خُدا حضور کا اقبال بلند رکھے اور صحت مند رکھے  واللہ ہم حضؤر کے منتظر تھے اور ساتھ ہی یہودی کا تعارف کرواتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے سُلطان !یہ جناب برزل ۔ یہودی دوبارہ جُک جاتا ہے ۔تب سلطان فرماتے ہیں کہ برزل اپنی مُراد بیان کرو۔ یہودی انتہائی خوف کے عالم میں با مشکل کہتا ہے کہ زمین کا درخواست گزار ہوں۔یعنی قدس (یروشلم ) میں یہودیوں کے لئے زمین کا درخواست گزار ہوں۔

یہودی کے یہ الفاظ سُن کر سُلطان کے چہرے کا رنگ سرخ گل لالہ کی طرح ہو جاتا ہے اور پیشانی اور آنکھوں سے جیسے طوفان اُمڈ کر یہودی کو پاش پاش کر دے گا ۔یہودی فوراً بولتا ہے عثمانیوں کے پاس ایک عطیم سلطنت ہے۔جبکہ یہودی روس اور رومانیہ میں بُرے حال میں ہیں۔یہودیوں کے لئے تجارت پر پابندی ہے زمین بھی خرید نہیں سکتے ۔ ائے سلطان عثمانی سلطنت  کے علاوہ ہر جگہ ان کے حقوق چھین لیے گئے ہیں ۔

سُلطان عبدلحمید یہودی کی چلاکی و مکاری بھانپتے ہوئے فرماتے ہیں ”تو تم اس حقیقت کے بارے میں اپنے اخبار میں کیوں نہیں لکھتے؟اس کے برعکس تم تو عثمانیوں پر یہودیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا الزام لگاتے ہو۔ یہودی ایک بار پھر مکارانہ انداز سے جواب دیتا ہے کہ ان تمام خبروں کے پیچھے سیاسی مسئلے ہوتے ہیں۔اگر آپ راضی ہو جائیں تو ہر شے بد ل جائے گی۔ہمیں  فلسطین میں زمین دے دیجیےہمارے وطن کے لئے اور آپ کو تو معلوم ہی ہے مادی معاملات میں یہودی بہت مضبوط ہیں ۔ آپ کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ہم عثمانی سلطنت کا تمام یورپی قرضہ اتار دیں گے۔میں آپ سے بس یہ عنائت چاہتا ہوں کہ۔۔القدس میں خاطرخواہ زمین ہمیں فروخت کر دیجیے۔

سُلطان عبدلحمید انتہائی جلال میں آ جاتے ہیں اور اپنی لاٹھی زمین پر زور دار مارتے ہیں اور  آنکھوں میں  آگ و خون کی سی جھلک لیے با وقار انداز میں فرماتے ہیں ”یہ زمین برائے فروخت نہیں ہے۔یہ زمین میری نہیں میری ملت کی ہے ۔میری ملت کا خون اس زمین  میں شامل ہے۔یہ زمین کسی اور کے پاس جانے سے پہلے ایک بار پھر ہمارے خون سے بھرجائے گی۔میرے شامی اور فلسطینی فوجی دستے کے سپاہی اس سر زمین کے لئے شہید ہوئے ہیں۔کیا وہ لوگ واپس آ سکتے ہیں جنہوں نے اس زمین کو اپنے خون سے سینچا؟ دولتِ عالیہ (ریاست) میری نہیں ملت کی ملکیت ہے۔میں اس زمین کا کوئی ٹکڑا کسی کو نہیں دے سکتا۔ہماری لاشیں گرانے کے بعد ہی اس زمین کی تقسیم ہو سکتی ہے۔جب تک بدن میں جان ہے میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔میں قدس میں ایک صیہونی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے سکتا۔یہودی اب پینترا بدلتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے ۔بلکہ ہم عثمانیوں کی امن پسند رعایا کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں۔سُلطان یہودی کے اس جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے ایک تصویری خاکہ پاشا کی جانب بڑھاتے ہیں کہ دیکھاؤ اسے تصویر دیکھتے ہی یہودی کا رنگ اُڑ جاتا ہے لیکن دوسرے لمحے ہی سُلطان کہتے ہیں کہ یہ چھ کونوں والا داؤدی ستارہ  اس کے اوپر اور نیچے نیلی لائنیں ۔۔۔ یہودی فوراً بولتا ہے کہ یہ محض اشارے ہیں ۔ان کا کوئی معنی نہیں    ۔معنی بھول گئے ہیں تو میں یاد کروا دیتا ہوں برزل نیل سے فرات تک کا علاقہ۔۔اس جھنڈے پر ظاہر کیا گیا ہے ۔تم لوگوں کی خواہش ۔۔۔ارضِ موعود کے قیام کا اعلان کرنا ہے۔نیل سے فرات تک صیہونی  سلطنت کا نعرہ ہے جو تم لوگ قائم کرنا چاہتے ہو۔مگر میں ابھی زندہ ہوں اور جب تک میں زندہ ہوں یہ ریاست قائم نہیں ہو سکتی ۔یہ ہے میرا فیصلہ !نکل جاؤ  دفع ہو جاؤ ، اسی وقت میری آنکھوں کے سامنے سے۔
جلال  ؔ