پیر، 4 فروری، 2019

فکرِاقبالؒ اور دینِ ابراہیم علیہ السلام


ملّت ِ ابراہیم علیہ سلام اور فکرِ اقبالؒ
تحریر : محمد ظہیر اقبال (جلال)

علامہ محمد اقبال ؒ کے فکر و فلسفے کی روشنی میں دینِ ابراہیمی ہی واحد راستہ ہے جو انسان کو معرآجِ تک پہنچا سکتا ہے۔ انسانیت کو جہالت کی تاریکیوں اور بُت پرستی جیسی لعنت سے نجات دلا کر اسے مسجود ملائک و اشرف لمخلوق ہونے کا درس دیتا ہے۔علامہ محمد اقبال ؒ کے کلام کوفقط شعر و سُخن سمجھ  لینا انتہائی درجے کی بے ذوقی ہے آپ کا کلام شاعری کے رنگ میں اُس آفاقی پیغام کی وضاحت و ترجمانی ہے جس کی ابتدا ابراہیم علیہ سلام کی کٹھن قربانیوں سے شروع ہو کر حضرت محمد ﷺ کی ختم ِ نبوت پر تکمیل ہوتی ہے۔

ابراہیم علیہ سلام کی پوری زندگی کُفر و شرک کے خلاف جہدِ مسلسل اور امتحانوں میں گزرتی ہے اور آخرِکار آپ کو اللہ تعالٰی امامت کی خِلت سے نوازتے ہیں ۔دینِ ابراہیمی صبر و استقامت اور قُربانیوں سے عبارت ہے۔بنی نو انسان میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی جیسی ابراہیم علیہ سلام نے اپنے رَبّ تعالٰی کے حکم کی بجا آوری و فرمابرداری اور تسلیم و رضا کےلئے  پیش فرمائی ۔بنی نو انسانیت کی امامت اور دینِ ابراہیمی کی بنیاد  درحقیقت کُفر و شرک اور بُت پرستی کے خاتمے کا علان ہے اور انسانیت کو ایک حقیقی اور ابدی زندگی کی طرف دعوت ہے کہ جہالت کے اندھیروں سے نِکل کر ایک خُدا ئے واحد کی رسی کو پکڑ لو اور ایک سجدہ کر کے ہزاروں سجدوں سے نجات حاصل کر لو۔

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے—صنم کدہ ہے جہاں لَا اِلٰہ اللہ
اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات بڑی بے نیاز ہے۔اُس کی شانِ بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ پوری کائینات کی تمام مخلوقات مل کر اُسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتیں اور اسی طر ح کُل کائینات کی ساری مخلوقات مل کر اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔اُس نے ہر ہر چیز کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہےاور پھر ان میں نفع و نقصان رکھ چھوڑا ہے۔وہ تنہا پوری کائینات کا خالق و مالک بھی ہے اور رازق بھی ہے۔اُس کا امر ہی اوّل و آخر پر غالب ہےوہی اوّل بھی ہے اور وہی آخر بھی ہے۔وہ واحدہ ھو لاشریک ہےاورشانِ صمدیت کے اظہارکےساتھ ساتھ اِنَ رَحمَتِی وَاسِعکا اعلان بھی فرما رہا ہے۔راہِ عشق سے کائینات کی تخلیق فرمائی اور اِک جہانِ کار زار وجود میں لایا۔ہرآن اِک نئی شان کے ساتھ عشق کے رموز و اسرار منکشف فرما کر اپنے خُدا و مَعبود ہونے کے مقصدِ حقیقی کی یاد دہانی کرا رہا ہے ۔خود اپنے بارے ارشاد فرمایا کہ وہ ہر وقت کام میں مصروف ہے ۔اُسے کوئی چیز نہیں تھکا سکتی۔ حضرت سُلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب عین الفقر میں تحریر فرمایا ہے کہ جب پہلے پہل اللہ تعالٰی کا اِرادہ بنا کہ پہچانا جاؤں تو اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے اپنے ذاتی نور کا اسم اللہ ذات میں ظہور فرمایا پھر اس نور سے آقائے نامدار کا نور ِ مبارک تخلیق فرمایا  اوْل  ما خلق اللہ نوری یا جابران اللہ تعالٰی خلق قبل ا لاشیاء نور نبیک من نورہ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے لفظ ِ کُن فرما کر اٹھارہ ہزار  عالم کی ارواح کو پیدا فرمایا اور اُن کو صف در صف کھڑا کیا اور انہیں اپنے ذاتی نور کا اسم اللہ ذات میں دیدار کرایا اور پھر چار ہزار سال بعد ان سے ایک سوال کیا الست بربکم ۔ کیا میں تمہارا رَبّ نہیں ہوں ؟ تمام ارواح نے بیک زبان ہو کر جواب دیا  قالو بلٰی شھد نا۔ بولے کیوں نہیں؟ ہم گواہ ہیں۔
حضرت سُلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی وہ موقع تھا جب اللہ تعالٰی نے انسان کے حقیقی مقصد ِ حیات کی نشاندہی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دیگر صفات کو چھوڑ کر صرف ایک ہی صفتِ رَبُوبیت کا اظہار فرمایا ۔رَبّ ہونے کا اظہار  ! رَبّ اللہ تعالٰی کا صفاتی اسم مبارک ہے اس کے معنی ہیں پالنے والا۔ہم سب کی روحوں سے پوچھنا یہ مقصود یہ تھا کہ اے روحو  ! کیا میں تمہیں پال رہا ہوں ؟پلنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہےہماری ارواح کون سی غذاپر پل رہیں تھیں؟اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہماری ارواح انوار و تجلیات کے مشاہدات  و ذکر اللہ سے پل رہی تھیں اور یہی ہماری روحوں کی غذا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالٰی نےاپنی امانت  اٹھارہ ہزار عالم کی ارواح پر پیش فرمائی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔
ترجمہ:بیشک ہم نے امانت فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اُٹھانے سے انکار کیااور اس سے ڈر گئے مگر آدمی نے اُٹھا  لی بیشک آدمی اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے میں بڑا نادان ہے۔(سواہ احذاب آیت 72)
صُفیااور مفسرین کرام فرماتے ہیں وہ امانت یہی اسم اللہ ذات ہے۔لہذا جب انسان نے اس امانت کو قبول کرنے کا وعدہ کے لیا تو اللہ تعالٰی نے فرمایا اے انسان ! میری امانت پاک و طاہر ہے لہذا مَیں اسےپاک پردوں میں لپیٹ کر تیرے دل میں رکھ رہا ہوں اور اب تجھے ایک نیا جسم دوں گا ،نیا  جہان دوں گااور آزمائش کے لئے تین شکاری تیرے ساتھ لگا دوں گااب میں یہ دیکھتا ہوں کہ جب تو واپس میری بارگاہ میں لوٹ کر آتا ہے تو میری امانت صحیح سلامت واپس لوٹاتا ہے یا اسے وہیں ضائع کر کے آ جاتا ہے۔پس آج انسان نئے جسم کے ساتھ نئے جہان میں آیا بیٹھا ہے اور امانت الٰہیہ سینوں میں اٹھائے ہوئے ہے۔
·       حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :۔

اس پیکرے خاکی میں اِک شے ہے ،سو وہ تیری
میرے لئے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی

·       سُلطان العارفین حضرت سُطان باھو رحمتہ اللہ فرماتے ہیں

بَنھْ چَلا یا طرف زمین دے عَرشوں فَرش ٹِکایا ھو
گھر تِھیں مِلیادیس نَکالااَساں لِکھیاجھولی پایا ھو
اَسیں پَردیسی سَاڈا وطن دور اڈھا باھو دم دم غم سَوایا ھو

تین شکاری نفس ،شیطان اور دنیا ہیں۔ جو اس امانت الٰہیہ کو لوٹنے کے چکر میں ہر پل جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں ۔مسجود ِ ملائک کی تخلیقسے لے کر آج تک ہر انسان ان آزمائش کی گھڑیوں سے گزرتا آرہا ہے ۔جس نے مقصود ِ حقیقی کی طلب کی خاطر اِن دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہ رہتی دنیا کے لئے تا قیامت امام اور رول ماڈل بن گئے اور جو ان دشمنوں کی مخالفت کی بجائے ان کے قیدی و اسیر ہو گئے وہ رہےی دنیا کے لئے عبرت بن کر وہ گئے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے بہت سے لوگوں کے حالات بیان فرمائے ہیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ سلام کے حالات ِ زندگی ملت ِ ابراہیمی کے ہر پیروکار کے لئے بہتریں نمونہ ہیں ۔ہر مسلمان کو چاہئے وہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کو اپنا امام اور رول ماڈل جان کر ان کے طریقے پر عمل پیرا ہو ۔
·       بقول حضرت علامہ محمد اقبال رحمتۃ اللہ

حنا بندِ عُروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تیری نسبت ابراہیمی ،معمارِ جہاں تو ہے

حضرت ابراہیم علیہ سلام اپنی ذات میں کامل مردِ حق اور  ایک  جہان   تھے۔آپ حکمت و عرفان کا منبع و سرچشمہ تھے کہ آپ  طالب کے لئے ایک مینارہ نور ہیں آپ کی حیات طیبہ کاایک ایک پہلوجدو جہد اور لاَ کی تلوار سے  مزین ہے ۔آپ اپنے عقیدے اور ایمان کی بدولت تمام معبودانِ باطل کا سَرقلم کرتے نظر آتے ہیں ۔آپ اپنے عقیدے اور دین ِحنیف پر اس طرح کار بند نظر آتے ہیں جس میں ایک رائی کے دانے برابر بھی شک و شبہ کو کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔آپ کاہر عمل آپ کے عاشقِ صادق ہونے کی دلیل ہے آپ عشق کے مظہر ہیں ایمان کی کُندن صورت عشق ہے اور عشق کی راہ پر چلنے والے کبھی ڈگمگاتے نہیں ہیں  بلکہ ایک لمحے میں وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جو عقل و علم اور ایمان کو حاصل کرنے کے لئے زمانے لگ جاتے ہیں۔یعنی "جس منزل تے عشق پُہنچاوے  ایمان نو خبر نہ کوئی ھو"حضرت ابراہیم علیہ سلام نے بچپن میں ہی لاَاِلٰہ الا اللہ کا سبق  پکا بھی لیا تھا اور اس کا عملی مظاہراہ  بُتوں کے سر اور گردنیں توڑ کر کر دیا تھا۔آپ بچپن سے ہی  رَبّ کے پرستار اور ماننے والے تھے۔بندہ جب تک تمام الٰہ کی نفی نہیں کرتا اُس وقت تک وہ اللہ تعالٰی کا قُرب اور معرفت حاصل نہیں کر سکتا ۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـهَهٗ هَوٰىهُ  ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًاO(سورہ الفرقان آیات 43)
ترجمہ: کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو۔

یہ لمحہ ِ فکر ہے آج کے مسلمان کے لئے  جو نفسانی خواہشات کے پیچھے لگ گیا ہے ۔مسلمان کا دنیا میں یہ کام نہیں ہے نہ ہی ابراہیم علیہ سلام کا یہ طریقہ تھا ۔وہ تو خالص ایک خُدا کے حکم کو ماننے والے تھے ۔خواہشات کے پیچھے بھگنا تو کافر و مشرک کا عقیدہ اور کام ہے ۔جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر کفر کے پیچھے دوڑتے ہیں تووہ جان رکھیں کہ تو کفر ہمیشہ ضلالت کی طرف لے جانے والا ہے جبکہ جو لوگ اللہ تعالٰی کی جانب دوڑتے ہیں فرمایا دوڑو اللہ کی جانب کہ یہی سیدھا راستہ ہے اور اللہ کا راستہ تمہارے لئے عشق و معرفت کی منزلیں طے کرنا آسان کر دے گا درحقیقت لاالٰہ کا راستہ عشق کا راستہ ہے اورعشق کے سامنے کوئی نفسانی خواہش کھڑی نہیں ہو سکتی عشق  وہ قوت ہے جس سے ہر پست کو بالا کیا جا سکتا ہے ۔عشق وہ یقین ہے جو مقصودِ حقیقی کے سوا ہر چیز کو جلا دیتا ہے عشق ہی بقا ء حقیقی سے روشناس کرانے والا ہے۔
·       حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐسے اُجالا کر دے

جاری ہے۔۔۔