جمعہ، 19 جون، 2020

آخر وہ کون سی چیز ہے


آخر وہ کون سی چیز ہے، جو ممللکتِ خدادا پاکستان میں اسلام کو نظام کی شکل میں عدل و انصاف کرنے پاکستان کو ایک حقیقی آزاد اور خود مختار ریاست بننے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔آج کی دنیا جس میں آزادی اظہارِ رائے کی ہر طرف صدائیں لگائی جاتی ہیں، مگر ان صداؤں میں پاکستانی میڈیا اور سیاست دانوں کی کہیں کوئی  ایسی آواز سنائی نہیں دیتی کہ ملک و قوم کے لئے اور حق و سچ کے لئے ان کی کوئی کوشش و کاوش کہیں دیکھائی یا سنائی پڑے ۔اب جبکہ امریکی عوام اور پوری دنیا یہ حقیقت جان چکی ہے کہ کرونا وائرس ایک سوچی سمجھی دہشتگردی  اور شرارت ہے اور اس دہشتگردی کا  فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ کون ہے جس کو لوگوں کی اجتماعیت سے خوف اور مسئلہ ہے ، کون ہے جو مذہب اور خدا سے چھٹکارا چاہتا ہے؟ کون ہے جو اپنے علاوہ دیگر تمام انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے؟آخر وہ کون سی ایسی چیز ہے جس نے روئے زمین کے تمام لوگوں کو حق اور سچ بولنے سے روک رکھا ہے۔حکمرانوں کی تو بات کرنا ہی فضول ہے یہ حکمران بننے سے پہلے اس دجالی سسٹم کے اتنے طواف کر چکے ہوتے ہیں کہ  کرسی تک آتے آتے ان کے  ہوش و حواس کھو چکے ہوتے ہیں  اور انہیں سودھ بودھ ہی نہیں رہتی کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔

صحافت ایک ایسا ناسور ہے، جو مسلمان حکمرانوں کو الجھانے اور ان کے فیصلوں کی راہ میں  رکاوٹ ڈالنے کا ایک  طریقہ اورہتھیار ہے۔ اسی صحافت کے  ذریعے مسلمان میں سے جرائم پیشہ کمزور لوگ جن کا مقصد دنیا کا مال ہوتا ہے ان کے ذہنوں میں اپنے مطلب کی کہانی ڈالی جاتی ہے اور پھر انہیں ریاست اور حکومت کے سامنے ایک رہنما، صحافی یا پھر ایک آزاد سیاح بنا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اور ناہی کوئی مقصد۔  لیکن کسی مرد خدا میں انہیں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں ہے۔
صحافت کے بارے میں جو ایک روایت سنتے آرہے ہیں کہ مملکت کے ستونوں میں سے ایک ستون ہیں۔ یہ نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ یہ  ایک ہتھیار ہے ۔رہی یہ بات کہ پریس صحافت اورمیڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے !
 اچھا اگر یہ ستون ہے تو اس کا  کام تو مثبت ہونا چاہیے؟ جبکہ یہ ستون تو  مثبت سے زیادہ منفی کردار ادا کر رہا ہے۔اس ستون کی حقیقت راہ میں روڑے اٹکانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ستون ایک رخنہ ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔خلافت عثمانی کے دور میں باقائدہ ایک منظم صورت میں بادشاہوں کے گرد علماء مفتیٰ اور صوفیاء کی شکل میں لوگو موجود رہتے تھے  ان کی جگہ رفتہ رفتہ ایسے لوگوں کو داخل کیا گیا جن کا مقصد بادشاہوں کو  روز نئے اور متاثر کن وقعات   اورحالات سے اۤگاہ کرنا ہوتا تھا جو قدرِ خوشامد پرستیبھی کرتے تھے یوں رفتہ رفتہ  ایک غیر محسوس طریقے سے ایک ایسا طبقہ پیدا کر لیا گیا جسے بعدازاں اور آج صحافت اور  ستون کے نام دئیے جا رہے ہیں ۔ آخری خلیفہ سلطان عبدلحمید  کے یہ الفاظ اس بات پر دلیل اور  ثبوت ہیں کہ تم  یہودیوں پر ہم مسلمانوں کے بے شمار احسانات ہیں لیکن اس کے باوجود تم مختلف طریقوں سے ہم مسلمانوں کے خلاف لکھتے ہوبلکہ تمہارے کچھ لوگ خاص طور پر اس مقصد کے لئے باقائدہ  منظم انداز میں چھاپا خانے (پریس) چلا رہے ہیں اور باقائدگی سے لوگوں میں غلط باتیں پھیلا رہے ہیں۔
یہ ہے وہ ستون جو ریاست  کے اندر ریاست بنانے کا کام کرتا ہے۔ اور یہی کام آج وہ پاکستان میں کر رہے ہیں اگر کسی کو شک ہے تو میں ایسے آدمی کو  اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اس سے بات کی جائے اور اسے دلائل دئیے جائیں۔
اگر ایک اچھی اور ذمہ دار حکومت  کو کام کرنا ہو تو سب سے پہلے اسے کچھ بنیادی کام کرنے ہونگے۔ اگر یہ نہیں ہوتے یا نہیں کیئے جا سکتے تو  آپ ایک ہزار سال بھی جمہوری تابوت کا طواف کرتے رہیں مسائل  اور کرپشن  کے ساتھ آپ کا ملک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوجائے گا۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں آپ کو اپنا خود کا ایک مکمل نظام حکومت بنانا ہے ، جیسےکوئی ملک اپنے انتہائی قیمتی اور خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کے لئے ایک مکمل فول پروف نظام تشکیل دیتا ہے۔ بلکل اسی طرح آپ کو اپنا ایک خود کار نظام حکومت تشکیل دینا ہے جس میں کہیں کوئی سکیورٹی، معیار  کا نقص اور کمزاروی نہ ہو۔ سو فیصد درست اور قابل عمل نظام ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شیطانی دماغ اس میں سے راستہ نکالتا ہے تو اک لمحے سے پہلے ایسے بندے کو آگلے جہاں روانہ کر دیا جائے۔
آگے آنے والے حالات اس قدر مشکل اور خوفناک ہیں اس کا اندازہ  صرف اس ایک بات سے لگا لیں کہ پوری دنیا میں مسلم ممالک کے تمام حکمرانوں کی حیثیت ایک منیجر سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہو گی۔ جس کا  کام عالمی  حکومت کے لئے اپنے اپنے علاقے سے ٹیکس  اکٹھا کرنا اور دیگر امور کی نگرانی کرنا ہوگا۔ کیا یہی کچھ آج کی حکومتیں نہیں کر رہیں ؟  زرا سوچیں تو سہی کیا آپ کے حکمران  اور بلخصوص عدلیہ آپ کی خواہشوں  اور آمنگوں کے عین مطابق کام کر رہی ہیں؟ایسا   نہیں ہے ! تو پھر جان لیں ! ایسا جان بھوج کے کیا جا رہا ہے، اس کے بعد ریفامز آئیں گے جسے تبدیلی کا نام دیا جائے گا( جاہل اسے عمران خان سے نتھی کریں گے) لوگوں کو ایک ایسا انصاف دیا جائے گا جو وقعی میں نظر آئے گا۔   تاکہ لوگ نئی دجالی حکومت کو سر آنکھوں پر بیٹھا کر قبول کریں اور دجال کو سجدہ کریں۔ لیکن اس نظر آنے والے انصاف کو صرف اور صرف  وہی لوگ پہچانیں گے جنہیں میرا رب دونوں آنکھوں کا نور عطا فرمائے گا کیونکہ اس میں بھی دجل ہو گا۔
بس اب جمہوریت کے تابوت کا طواف بند ہونا چاہیے ۔ بہت ہو گیا یہ کھیل ہمیں شرم آنی چاہیے  ، بے حسی اور غیر ذمہ داری کی ہم نے ہر حد پار کر ڈالی ہے۔ جاؤ دیکھو اگر حکومت دیکھنی ہے تو اسرائیل کی دیکھو جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ۔
میڈیا کے تمام لائسنس کنسل  کر کے انہیں بند کریں۔ یہاں میں ایک پیشنگوئی کہہ لیں یا ایک بات بتانے لگا ہوں کہ " امام مہدی علیہ السلام  کو جو کامیابیاں ملیں گی تو اس کے پیچھے اصل قوت آپ کے درست فیصلوں کی ہو گی اللہ پاک نے انہیں یہی ایک خوبی اور وصف دے رکھا ہو گا کہ وہ حالات کا تجزیہ کر کے درست فیصلے پر پہنچ جایا کریں گے۔ اور مجھ ناچیز کی رائے میں وہ سب سے پہلا اقدام اسی میڈیا کے نیٹ ورک کو توڑ نے کا کریں  گے۔ کیونکہ آج سب سے بڑ ا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کچھ اور کہہ رہی ہوتی ہے اور دجالی میڈیا  اسی بات کو کسی اور ہی رنگ میں پیش کر رہا ہوتا ہے۔  میڈیا  ہتھیار ہے۔
          
آہ قومی دل زحق پرداختہ
مردومرگ خویش را نشناختہ

افسوس ہے ایسی قوم پر جس نے حق سے دل ہٹا لیا ، جو مر چکی ہے ، لیکن اپنی موت کو پہچانتی نہیں ہے۔
اقبالؒ

کسی بھی ملک قوم کا انحصار ان چار بنیادی ستونوں کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ اگر ہم 1441سو سال پیچھے ریاست مدینہ  کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں سب سے اہم  یہی چار چیزیں ملتی ہیں جن پر فوکس کر کے نبی کریمﷺ نے  انتہائی مختصر وقت 23 سال میں انقلاب بھرپہ کر دیا تھا۔اس انقلاب کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ  ہجرت کے بعد آپؐ  کے رفاقہ اور ساتھیوں میں ایسے بے شمار لوگ تھے جن کے پورے پورے خاندانوں نے اسلام قبول نہیں کیاتھا جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا وہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے اور باقی افراد خانہ مکہ میں ہی قیام پزیر تھے۔ یہ ایک غیر معمولی صورت حال تھی ، لیکن اس سے بھی بڑھ کر پہلی جنگ (جنگ بدر) میں خون کے رشتے آمنے سامنے تلواریں سونتے صف آرا تھے۔
میں جس نقط اور خاص چیز کی جانب توجہ دلانا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ نیچے دئیے گئے چاروں مندجات کاتعلق ایک خاص  پس منظرسے ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔