ہفتہ، 2 مارچ، 2019

جنگ اور امن

کون جنگ چاہتا ہے، کون امن چاہتا ہے !
تحریر : جلال ؔ


خدا  کرے کسی دشمن کو بھی کم ظرف دشمن سے واسطہ نہ پڑے ۔جی ہاں یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا دشمن انتہائی درجے کا کم ظرف ،مکار،جھوٹا اور پرلے درجے کا  ضدی بچہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہا کا خوش فہم بھی ہے ۔ بھارت  دنیا کا  واحد ملک ہے جہاں ہر چیز کو اس کے منفی پہلو سے دیکھا ،پرکھا اور مانا جاتا ہے۔ابھی  شاید آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن جوں جوں بات آپ کی سمجھ میں آتی جائے گی غیر ارادی طور پر آپ مجھ سے اتفاق کرنے لگیں گے۔سب  سے پہلے میڈیا کا ذکر ضروری ہے کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جو عوام کے دل و دماغ کو آج کنٹرول کر رہا ہے۔پوری دنیا میں  بھارت وہ واحد ملک ہے جس کا میڈیا  صرف اور صرف جھوٹ کے سہارے چلتا ہے۔جھوٹ بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ جسے سفید جھوٹ کہا جاتا ہے اس سے بھی زیادہ جھوٹ یعنی جس چیز کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا بھارتی میڈیا اُسے بھی سچ اورحقیقت بنا کے دیکھا دیتا  ہے۔اور اگر بات پاکستان کی ہوتو  پھرہر بھارتی کے جسم میں جھوٹ کی دیوی ماتا کی اتما   اُتر آتی ہے  اور پھر اُسے خود بھی  یاد نہیں رہتا کہ وہ کیا کیا  اور کیسے کیسے جھوٹ بول گیا ہے وہ نہیں جانتا کہ  اُسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور ابھی ساری دنیا اندھی نہیں ہوئی ہے  اور نہ ہی ساری دنیا دیوانی  اور پاگل ہے جو ان کے انے انے کے راگ  پاٹ اور  اجو باجومیں ہونے والی اُٹھک  پھٹک نہ سمجھ  سکے۔
حالیہ چند دونوں میں بھارتی میڈیا نے جس طرح سے جنگ،جنگ،جنگ اور بدلہ بدلہ کی گردان کی رٹ لگائی اور ٹی وی سکرین پر دن میں دس دس مرتبہ پاکستان کو فتح کیا یہی نہیں بلکہ پاکستان کے ایف 16 جہاز تک  تباہ کرنے کا دعوٰی اور اعلان کر ڈالا یہ سب دیکھ  کر ایک عام اور نارمل انسان حیران پریشان ہو جاتا ہے پھر سوچتا ہے شاید یہ کوئی ایسا چینل ہے جس میں ذہنی طور پر بیمار لوگو کام کرتے ہیں   جو  دیکھائی اور سُنائی دیتا ہے اس تو یہی سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی طرح سے بھی یہ سب نارمل نہیں لگتا؟ اب زرا منفیت (یعنی منفی سوچ) کی اِک جھلک بھی دیکھ لیں  وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب  جزبہ خیر سگالی کے طور پر گرفتار بھارتی پائلٹ کو غیرمشروط  طور پر بھارت کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں۔اورساتھ ہی   اُدھر بھارتی میڈیا اُسی لمحے " پاکستان نے گٹھنے ٹیک دئیے ہیں اور بھارت کی برتری اور فتح کو تسلیم کر لیا گیاہے"  !!! اندازہ کریں  کس قدر ہواس باختہ اور خوش فہمی میں مبتلہ ہے یہ  قوم  !!پتا نہیں انہیں قوم  کہنا بھی چاہئے کہ نہیں خیر۔۔ایک ایسا کام جو سرا سر انسانی ہمدردی اور خطے کو جنگ سے بچانے کے لئے وزیراعظم پاکستان کرنے کا اعلان کرتے ہیں  بھارتی میڈیا اسے کیا  سے کیا  معنی  اور رنگ دے دے کر دیکھاتا  ہے۔ ہو سکتا بھارت میں کسی کے احسان کا بدلہ یوں ہی چُکایا جاتا ہو ! لیکن باقی کی دنیا ابھی  بے ذوقی اور  پستی کی اس حد کو نہیں پہنچی دنیا میں احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور ہمیشہ اُس کے سامنے احسان مندی کا رویہ اپنایا جاتا ہے  ۔کسی دانا کا قول ہے کہ  کوئی فرد یا قوم جب منافقت کی پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھتی ہے تو پہلا جھوٹ بولا جاتا ہے بس پھر یونہی رفتہ رفتہ  آخری سیڑھی  تک جھوٹ  بولتے بولتے  پہنچا جاتا ہے اور یہ  احساس تک نہیں ہوتا کہ کب ان کادین دھرم بلکہ سب کچھ جھوٹ ، جھوٹ اور بس جھوٹ بن  چکا ہوتا ہے  الغرض ہر چیز کی شکل و صورت  کو منافقت اور جھوٹ کی چادر سے ڈھانپ  دیا جاتا ہے  ۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی معاشرے  میں تہمات،شک، شرک،ذات پات ،جھوت چھات،جوٹھ جاٹھ  جیسی نفرتوں کی  لاکھوں اشکال نے مورتیوں اور بُتوں کی شکل  میں  اس قوم کا  دین دھرم اوراُڑھنا بچھونا بنا  رکھا ہے۔پستی کے اس مقام پر پہنچ کر  ایسی اقوام ہٹ دھرم ضدی مُنہ پھٹ اور اندھے پن کا شکار ہو جاتی ہیں اور اپنے تائیں ایک انتہائی  پارسا اور منفرد خیال کرنے لگتی ہیں  یہ بلکہ ایسے ہی ہے جیسے یہودی قوم کا اپنے بارے میں یہ کہنا ہے کہ "ہم منتخب زداہیں"جبکہ حقیقت میں ایسا  کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا ان کی بات مانے  اور اسے ہی سچ کہے مطلب   یہ  رات کو دن کہیں تو باقی دنیا بھی رات کو دن کہے مانے اور سمجھے  اور اس فریب کو اپنے فکر و عمل کا نتیجہ خیال   کر کے اس کی پوجا کرے ۔لاحولاولاقوۃ
اس دیرِ کہن کے مندر میں حسد،جھوٹ،مکر و فریب اور ریا  کی کالی دیوی  کے چرنوں میں فاقہ زدا زندہ انسانوں کی آہیں اورسسکیا ں بھینٹ کی صورت  اس کے بوجاریوں کے لئے سامانِ عیش و عشرت کے ساتھ ساتھ  معاشرت و سیاست  کےایسے   سکےاور مہرے بن کہ رہ جاتے ہیں جن سے  ہر دور کے مودی جیسے لاکھوں  اپنے  متعصب  فکر و فلسفے کی بدبو دار گندی  شکل و صورت کو چمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
حضرتِ اقبالؒ  ہندوستانی معاشرے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں؛

آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

وزیراعظم پاکستان محترم جناب عمران خان صاحب کی شخصیت حب الوطنی،خوداری، ایمانی غیرت وسچائی ،انسان دوستی ، درگزر اور معاف کر دینے  جیسی  اعلٰی  صفات کی آئینہ دار ہےیہی وجہ ہے کہ عمران خان صاحب  ہر معاملے میں ایک مثبت اندازِ فکر  کے زیر اثر رہتے ہوئے   انسانوں  سے  پیار و محبت  اور انسانوں کے لئے سردی گرمی سے بچاؤ کی تدبیریں اور انتظامات کرتے پھرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان  کی نہ تو فیکٹریاں بھارت میں  چل رہی ہیں اور نہ ہی کوئی مودی وزیراعظم پاکستان کا یار ہے جسے خوش کرنے کے لئے بھارتی پائلٹ یا جنگی قیدی واپس کرنا چاہتے ہیں بلکہ صرف اور صرف مقصد ِ اولین یہ ہے کہ خطے کو جنگ و جدل کی جانب بڑھنے سے روکا جائے اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جا ئے۔لیکن بدقسمتی سے  دوسری جانب آج ہندوستان کی سرزمین پر ایک ایسا شخص اقتدار کی کرسی پرآ بیٹھا ہے جس کے ہاتھ  ہزاروں  انسانوں کے قتل سے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔واہگاہ بارڈر اور سمجھوتہ  ایکسپریس ٹرین سے لے کر گجرات   کے قتل عام تک لاکھوں انسانوں کو زندہ جلانے اور ان  کے ٹکڑے ٹکڑے کروانے والا یہی مودی  ہے جو  وزیراعظم پاکستان عمران خان کے  برابر  بھی کھڑے ہونے کی اوکات نہیں رکھتا   لیکن وزیراعظم جناب عمران خان  اسے امن  اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں۔محترم عمران خان صاحب انسان دوستی اور ہندوستان میں بسنے والے لاکھوں کڑوڑوں  انسانوں   کو جنگ کی ہولناک تباہ کاریوں  سے بچانے کی بات کرتے ہیں اور   بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی واپسی کی بات کرتے ہیں  صرف اس لئے کہ آج جنگ سے زیادہ ضروری انسانیت کو غربت ،دکھوں ،غموں  اور مصائب  سے نِکالنے  کی ضرورت ہے۔ لہذا بھارتی حکومت کو  جنگی قیدی  جو  پائلٹ ہے   حوالے کرنے کی بات کی جاتی  ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھارت   جس نے کبھی کسی موقع پر  مثبت رویہ  نہیں اپنایا اور  کوئی  موقع نہیں  چھوڑا جب اس نے  پاکستان پر وار  نہیں کیا  ان سب باتوں کو ایک طرف کرتے ہوئے  امن  کا پیغام دیا جاتا ہے۔لیکن  اس کے ساتھ واضع اور دو ٹوک الفاظ میں ہم بھارت کو یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ   پاکستان  کی امن بات چیت کو کسی کمزوری اور مجبوری  پر قیاس کرنے  اور اس طرح کے معنی پہنانے  والوں کے لئے افواج پاکستان کا بھارتی طیاروں کا شکار  اور  وار صرف ایک وارنگ اور پیغام نہیں  بلکہ اگر  ہمیں مجبور کیا گیا  تو ہمارا  وار دنیا صدیوں تک یاد رکھے گی  ہم اگر تمہارا  پائلٹ  واپس کر رہے ہیں تو اس لئے نہیں کہ بھارتی  حکومت یا فوج کوئی بڑی قوت  یا  بلا ہے جس سے ہم ڈر گئے ہیں نہیں صرف اس لئے کہ ہم دوبارہ پکڑنے  کی صلاحیت اور قوت رکھتے ہیں  ہمارے فوجی جوان کا پہلا سبق ہی یہ ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی  گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ اس لئے کہ  ہمارے دل و دماغ نے ٹیپو سلطان کے فکر و عمل سے رہنمائی حاصل کی ہے۔جبکہ  ہم نے اپنے تمام  فیصلوں  کا اختیار  زمین وآسمان کے خالق و مالک  اللہ تعالیٰ جلہ جلال اور  رسولِ خدا  ہمارے آقا و مولا  امام انبیا   بلند مرتبہ اور  بزرگی والے ہادیِ دوجہاں  رَحمتُ العالمین  حضرت محمد ﷺ کو دے رکھا ہے۔لہذا ہمیں ڈرانے دھمکانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا ہاں البتہ ہم دوستوں کے دوست اور  دوست کی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ ہمارا پیغام امن و محبت  اور انسان دوستی ہے۔ہمارا دین  اسلام  ہے جس میں انسان تو انسان جانورں کے بھی حقوق ہیں  ہمارے نبیِ مُکرم حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں اللہ  کے آخری نبی و رسول ہیں جنہیں دشمنوں نے بھی صادق و امین جانا  اور مانا  ہے۔  آپؐ   کائینات کی تمام  مخلوقات   کے لئے  رحمت العالمین  بنا کر بیجئے گئے ہیں ۔
ائے  نادان  دوست تجھے گزرے کل میں حضرتِ  اقبالؒ نے   یہی پیغام دیا تھا اور آج بھی تیرے لئے یہی ایک راستہ ہے  ؛

سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو بُرا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پُرانے
اپنوں سے بَیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا
جنگ و جدَل سِکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
پتھّر کی مُورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں
بِچھڑوں کو پھر مِلا دیں نقشِ دُوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شِوالا اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلَس مِلا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے
سارے پُجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں
شکتی بھی، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے