امریکا افغانستان کی جنگ ہار چُکا ہے
Re-post
تحریر۔محمد
ظہیر اقبال
29 اکتوبر 2017ء
امریکا افغانستان میں شکست کھا چُکا ہے۔نئی امریکی
حکومت اب افغانستان میں وہی کھیل شروع کر رہی ہے جو پہلے عراق اور شام میں کھیل
چُکی ہے۔امریکی پالیسی ایک جانب کابل حکومت کی پشت پر کھڑی ہے تو دوسری جانب داعش
کی پشت پنائی کرتے ہوئے اسے افغانستان میں داخل کر رہی ہے۔یہ پالیسی جہاں ایک طرف
طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لئے ہے تو وہیں دوسری جانب پاکستان کو دباؤ میں لینے کے لئےبھی ہے۔اس پالیسی کو اب پاکستان کے دو ٹوک جواب کےبعد مزید متحرک
کر دیا گیا ہے۔چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں دئش کے جھنڈے دیکھے گئے ہیں۔
امریکا
کی افغان پالیسی حقائق کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی پالیسی ہے جس سے خود امریکہ ایک بار پھر شکست و
تبائی کی جانب بڑ رہا ہے۔انڈیا افغانستان میں قیامت روز تک بھی کوئی حقیقی کامیابی
اور کردار ادا نہیں کر سکتا ۔اس بات کا ادراک انڈین فوج اور حکومت دونوں کو ہے اس
کے باوجود انڈیا امریکہ کی افغان پالیسی کے تحت افغانستان میں رہنا چاہتا ہے
کیونکہ اس طرح انڈیا کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں مداخلت کرنے کا موقع ہاتھ آتا
ہے جیسا کہ پچھلے دنوں بلوچستان میں اس کا جاسوس پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں
گرفتار ہوا ہے۔یہ حقائق میں سے ایک مثال ہے جو پوری دنیا کے سامنے ہے۔
“امریکا خطے میں مستقل قیام کے لئے کابل کے
اطراف میں طویل قیام کی غرض سے فوجی اڈے بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کے لئے
بھاری مشنری اور آلات ان علاقوں میں پہنچا رہا ہے”۔
امریکی
پالیسی کے نتیجے میں خطے کے حالات:۔
افغانستان
پچھلی کئی دائیوں سے مسلسل جارحیت کی زد میں ہے اب تک لاکھوں انسان لقمہِ اجل بن
چُکے ہیں۔خاص طور پر 9-11 کے خود ساختہ حملوں کو جواز بنا کر جب سے امریکا
نے افغانستان پر حملے کرنے شروع کئے اور بعدازاں اپنی افواج کو افغانستان میں داخل
کیا ہے افغانستان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ جنگ اب ایک ایسی
سطح پر پہنچ چُکی ہے جوہر آنے والے دن میں امریکا کے لئے مشکلات کا ایک نیا
دروازہ کھولتی جا رہی ہے۔امریکا بیک وقت دو مختلف اور بلکل ایک دوسرے کی مخالف
پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ایک طرف امریکی حکومت افغانستان میں امن کی بات کرتی ہے
تو دوسری جانب دئش جیسی بدنامِ زمانہ تنظیم کو بھی افغان سر زمین پر در پردہ داخل
کر رہی ہے۔یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں امن کی بات کرنا کسی سنجیدہ طرزِ عمل
کی نشاندہی نہیں ہو سکتی۔ ان حالات میں کرزائی کا یہ کہنا کہ امریکا افغانستان میں
دئش کو نہ صرف ہوا دے رہا ہے بلکہ اپنے جہازوں میں لا کر افغان سر زمین میں داخل
بھی کر رہا ہے ایک انتہائی قابل غور امر ہے۔دنیا کے تمام سنجیدہ حلقے اس دوغلی
پالیسی کو انتہائی حیرانگی سے دیکھ رہے ہیں۔خطے کی بڑی طاقتیں اس کھلی جاحیت کو سنجیدگی
سے دیکھ رہی ہیں۔روس اور چین کی مشترکہ فوجی مشکیں اسی تناظر میں دیکھی جا رہی
ہیں۔ امریکا پاکستان سے ڈو مور کی بات کر کے ایک دفعہ پھر اپنی ناکامیوں کو
پاکستان کے سر تھوپ کر اسے جنگ میں شامل کرنا چاہتا ہے تاکہ ایک دفعہ پھر سے
پاکستانی علاقوں تک اس جنگ کو پھیلا کر اس بات کا جواز پیدا کر سکے کے باڈر کے اُس
پار سے مداخلت ہو رہی ہے اور اسی دوران دئش کو پاکستانی سر زمین میں داخل کر
سکے۔دئش کو افغانستان میں خفیہ امریکی سر پرستی کے پیچھے یہی منصوبہ بندی کار فرما
ہے۔ امریکی پالیسی کا یہ خفیہ پہلو پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی حاصل کرنے کے
لئے ہے۔دئش کو پاکستان میں داخل کرنا اس وقت امریکی خفیہ پالیسی میں انتہائی اہم
مشن کے طور پر لیا جا رہا ہے۔پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں دئش کے جھنڈوں
کا راتوں رات چند عوامی مقامات پر لگ جانا اسی پالیسی کا حصہ ہو سکتا ہے۔پاکستانی
سیاست میں سیاستدانوں کی اس بارے خاموشی بہت سے شکوک و شبات کی جانب اشارہ
کررہی ہے۔پاکستان کو اس وقت اندرونی اور بیرونی سطح پر چوکس رہنے کی انتہائی ضرورت
ہے۔خود پاکستانی وزیرِخارجہ کچھ ایسے ہی حالات کی جانب اشارہ کر چُکے ہیں کہ
پاکستان کو اس وقت انتہائی خطرناک سازشوں کا سامنا ہے ۔ان حالات میں امریکا
کا پاکستان پر ڈو مور کا دباؤ ڈالنا ساری حقیقت کو واضع طور پر سمجھنے کے
لئے کافی ہے۔امریکا کادہشت گردی کے خلاف پاکستانی کردار اور قربانیوں کو
تسلیم نہ کرنا اور امریکی حکومت کا پاکستان کے خلاف دھمکی امیز رویہ جہاں پاکستان
کے لئے حیران کن ہے وہیں از خود اس ساری کہانی کو بیان کر رہا ہے۔ایسا لگتا
امریکی اپنے سوا باقی دنیا کو بےواقوف خیال کرتے ہیں یا پھر خود
بےواقوف ہیں ۔پاکستان جس نے امریکی مفادات کی خاطر اپنے ذاتی مفادات کو بھینٹ چڑھا
کرہر سطح پر امریکا کا ساتھ دیا آج اسی پاکستان کو امریکی صدر کی دھمکیا ں
سمجھ سے بالا تر ہیں۔کیا یہ وہی پاکستان نہیں ہے جس نے مشرف دور میں ہر طرح کی
قربانی دیتے ہوئے امریکا کا ساتھ دیا تھا۔پاکستان جس نے اس جنگ میں اپنےبہت
سے سول اور عسکری لوگوں کی جان کی قربانیاں دی ہیں اور ایک طویل
اپریشن کر کے اپنے علاقوں سے ہر طرح کی دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کیا ہے اس
بات کی دلیل نہیں ہے کہ پاکستان کس قدر امریکا کے ساتھ سنجیدہ تعلقات چاہتا تھا
۔لیکن افسوس امریکی پالیسی سازوں نے پاکستانی کردار و قربانیوں کو یکسر فراموش کر
دیا اور ایک ایسی پالیسی کو ترتیب دیا جس میں پاکستان سے ہی ڈو مور کا مطالبہ
دوہرایا گیا ہےجو کسی طور درست ترزِعمل نہیں کہا جا سکتا۔افغانستان میں امریکی
پالیسیوں کی ناکامی کس طرح پاکستان پر ڈالی جا سکتی ہے یہ بات انتہائی حیران کن
ہے۔کیا افغانستان میں پاکستانی افواج اس جنگ کی کمان کر رہی ہیں؟کیا امریکی
پالیسیوں کو پاکستان نے بنایا ہے ؟یا امریکی پالیسیوں کو کامیاب کرنا پاکستان کی
ذمہ داری تھی جو اس نے پوری نہیں کی۔انتہائی احمقانہ اور غیر ذمے دارانہ الزامات
پاکستان پر لگا کر امریکا اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔طالبان یا کسی
دوسرے گرو کا اپنے ملک کا دفاع کرنا افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے جس میں پاکستان
کا کوئی کردار نہیں ہے ہاں البتہ بھارت اس سلسلے میں امریکا کے ساتھ افغانستان کے
اندر ایک پارٹنر کا کردار ادا کر رہا ہے ۔حالانکہ پاکستان کو بھارت کے اس طرح کے
کردار پر اعتراز تھا کیونکہ بھارت پاکستانی علاقوں میں برائے راست دہشت گردی کا
مرتکب پایا گیا تھا جس کے ہزاروں ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر
بھارت کے حاضر سروس نیوی آفیسر کا پاکستانی علاقے سے گرفتار ہونا اور پاکستان میں
دہشتگردی کی کاروایوں کو تسلیم کرنا ہے۔گلبوشن یادیو کے بیانات رکارڈ پر موجود ہیں
جو پوری دنیا کے سامنے ہیں۔عالمی برادری اس سلسلے میں پاکستان کی حمایت میں ہر طرح
ساتھ دینے کے لئے تیار ہے۔اس کے باوجود پاکستان پر الزام تراشی کرنا اور ڈومور کا
کہنا کسی طرح بھی درست نہیں کہا جا سکتا۔
ذیل میں
چند انٹرنیشنل میڈیا کے کالم اور تجزئے انگریزی زبان میں من و عن پیش
کئے جا رہے ہیں۔ جو افغانستان میں امریکی پالیسیوں اور امریکا کی شکست اور
امریکی حکومت کی بکھلاہٹ کی عکاسی پیش کر تی ہیں۔
Reference
Why
couldn't the U.S. Armed Forces win against the Taliban?
Chris
Everett, An American all my life
Answered
Mar 25, 2015 • Up voted by Marc Bodnick
Define
what winning in Afghanistan looks like...
I
mean, on a real, tactical level. What conditions must be met for
"victory"?
Can
you answer that? I can't. Neither can senior US
leadership.
However,
for the Taliban, winning is simply preventing the US from winning. That's
infinitely easier.
If
our mission in Afghanistan was "Destroy Al-Qaeda's ability to operate
internationally, and kill OBL, we probably would have won within a year. But
that was never the mission... No, we needed to "Bring peace,
democracy, freedom, and Coke-a-Cola to the people of Afghanistan".
We
wanted the Afghan people to LIKE us. Even though we were, you know,
invading their country. You might be the nicest guy in the world,
but if you're hanging out in my living room and won't leave, I won't like you
very much.
You
need to have achievable goals. In life, in business, and in the
military. We didn't have that. The Taliban did.
Another
Reference.
Why
we aren’t ‘winning’ in Afghanistan
By
Aaron B. O'Connell August 102017-
Aaron
B. O’Connell is associate professor of history at the University of Texas at
Austin and the editor of “Our Latest Longest War: Losing Hearts and Minds in
Afghanistan.”
President
Trump has reportedly been asking two questions about Afghanistan: Why has the
United States been there for so long? And why haven’t we won the war?
Afghanistan is complex and confusing but the answers to these two questions are
not. Unfortunately, answering them won’t get the president much closer to an
effective Afghanistan policy.
The
United States is still in Afghanistan because the Kabul government can’t defeat
or delegitimize the Taliban on its own, and because both previous presidents
believed that a complete withdrawal might destabilize Pakistan — the only state
in the world with nuclear weapons and a large and increasingly radicalized
Muslim population.
The
United States isn’t winning now – and hasn’t been winning for more than a
decade — because the insurgency has home field advantages that U.S. and
coalition partners have been unable to counter, even after we spent over $100
billion per year to flood the country with 140,000 troops.
The
Taliban have everything they need to fight indefinitely: money from opium,
weapons from previous wars, local networks for intimidating detractors,
sanctuaries in Pakistan, and an almost unlimited supply of new recruits from
rural Pashtun areas whose life narratives start and end with defending Islam
and rejecting foreign rule. They also have a degree of strategic patience that
the United States will never match. There’s an old Pashtun saying: “I took my
revenge after one hundred years and I only regret that I acted in haste.” Neither
4,000 nor 40,000 more troops will change these basic facts.
Crafting
good Afghanistan policy starts with asking good questions. “Why aren’t we
winning?” isn’t one. For starters, the war isn’t ours to win; it is part of an
intra-Pashtun tribal conflict that precedes Afghanistan’s founding in 1747.
Furthermore,
the U.S. military can’t “win” in Afghanistan because its goals are not
exclusively military. Outside military forces will not win the Afghans’ hearts
and minds, make the government legitimate, or change ordinary Afghans’ stories
about their leaders, communities, histories, or the law. In fact, America’s
militarized approach has actually diminished Kabul’s legitimacy because the
mere presence of foreign troops fuels narratives of crusaders and colonialists.
This
over-reliance on military power has only increased since Trump took office.
Thus far, the president’s only actions on the war have been to delegate
Afghanistan policy to the secretary of defense and to trumpet the dropping of
the “mother of all bombs” — the largest non-nuclear bomb in the U.S. arsenal.
All
experts agree that the Afghan war will end in a negotiated settlement rather
than a military victory, yet the president is seeking massive cuts to the State
Department that would presumably do the negotiating. More than six months into
the Trump presidency, there still is no U.S. ambassador in Kabul or assistant
secretary of state for South and Central Asia. Diplomacy isn’t just undervalued
in Afghanistan; it’s absent.
Instead
of seeking a final military victory over the Taliban, the president should
pursue a strategy that manages the region’s transnational terrorism threats
while protecting broader interests in a neighborhood that includes Pakistan,
Iran, India and China. Doing so would take into account what has worked well in
Afghanistan (selective counterterrorism strikes, health and education spending)
and what has not (anti-corruption programs, counter-narcotics and
contractor-led training of the army and police.) The strategy could involve
surging or withdrawing troops, but it would recognize that the only core
interests in Afghanistan are to cripple al-Qaeda and the Islamic State and
prevent a Taliban return to Kabul.
Taking
a regional approach would also prompt a reevaluation of the U.S. relationship
with Pakistan, a country that barely shares our values, harbored Osama bin
Laden and continues to support terrorist networks that kill Americans. We
should also explore a stronger partnership with India — the world’s largest
democracy and a far better security partner for countering a rising China. And
the White House must recognize that NATO, the U.N. and human rights-centered
diplomacy are assets – not obstacles – for maintaining the United States’
position in the world.
Before
any diplomatic solution can take effect, however, the White House needs to stop
muddying the waters with nonsense. The proposal to replace U.S. troops with
mercenary contractors is an amateurish suggestion by novices who would
sacrifice America’s reputation for a few dollars and fuel animosity among even
the most pro-American members of the Afghan government. The president’s
statements about monopolizing Afghanistan’s mineral wealth are equally
unhelpful.
There
are still some adults in the Trump administration, and they need to move the
president away from the false choice of either bombing his way to victory or
undertaking a precipitous withdrawal. Those aren’t the only choices and troops
aren’t the only tool.
ایسے
ہزاروں تجزیے اور تبصرے پوری دنیا کی جانب سے نیٹ کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔جن میں
زیادہ تر خود امریکی تجزیہ نگاروں اور عام لوگوں کی جانب سے مختلف تبصرے
دیکھے جا سکتے ہیں۔قیصہ مختصر یہ ہےکہ امریکا کو اپنی پالیسیوں اور
ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے افغانستان میں ایک مثبت اور جامع پالیسی پر عمل
درآمد کرنے کی ضرورت تھی جس پر امریکی انتظامیہ نے شروع دن سے توجہ دینے کی بجائے پاکستان
کو پہلے "ڈو مور" اور شکست کے
بعد پاکستان کو اپنی شکست کا ذمہ دار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ امریکی شکست
کا زمہ دار خود امریکا ہی ہے۔اگر امریکا نے اپنے طرزِ عمل پر غور نہیں کیا تو یہ
بات کہنے میں کوئی دقیق نہیں ہے کہ امریکا مستقبل قریب میں افغانستان میں مزید بہت
زیادہ نقصان اُٹھانے کے لئے تیار رہے جو کسی طورپر امریکی عوام کے لئے
ایک اچھی خبر نہیں ہو سکتی ۔امریکی معیشت اور خود امریکی بقاء کے لئے بھی اس طرح
کی غیر سنجیدہ پالیسیاں اور ڈبل سٹینڈرڈ قسم کا کردار انتہائی مہلک ثابت ہو
گا۔آج دنیا ایک بلکل نئے اور مختلف حالات میں داخل ہو چُکی ہے ۔پوری دنیا میں نئے
معاہدے ہو رہے ہیں ہر ملک ان حالات میں اپنی دفاعی اور معاشی حکمت عملی کو سنجیدگی
سے دیکھ رہا ہے ۔روس دوبارہ اپنی طاقت کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہے روس اپنی گزشتہ
غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ چکا ہے اور پھر سے ایک نئے عزم کے ساتھ دنیا میں اپنا
کردار ادا کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔دوسری جانب چین جو خطے کا ایک بڑا ملک ہے
اپنی تیز رفتار ترقی کے ساتھ اپنی اہمیت کا احساس دلا رہا ہے ۔چین جس کے پاس اس
وقت دنیا کی سب سے بڑی فوج اور امریکا سےبڑی اپریشنل فائیٹر جیٹ جہازوں کے ساتھ
ائیر فورس ہے کسی طرح نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔چین اپنی سلامتی اور بقاء سے کیسے
بے خبر رہ سکتا ہے جبکہ امریکی افواج اُس کے پڑوس میں بیٹھی ہیں ۔ان حالات میں
امریکا کو اپنی ذمہ داریوں کا پہلے سے زیادہ احساس اور ادراک ہونا چاہے ۔امریکی
پالیسی سازوں نے پوری دنیا کو اپنے ہی ہاتھوں اپنا دشمن بنا رکھا ہے اور پوری دنیا
آج امریکا کے اس طرزِ عمل کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔امریکی عوام اپنی حکومت اور فوج
کی غیر سنجیدہ پالیسیوں پر اگر سوئی رہی تو وہ دن دور نہیں جب سوؤیت یونین کی طرح
امریکا بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گا ۔روس دوبارہ اپنی طاقت اور اہمیت کے ساتھ
اس لئے کھڑا ہو گیا ہے کیونکہ روس نے ساری دنیا کو اپنی طاقت اور اپنی پالیسیوں سے
تنگ نہیں کیا تھا روس نے صرف افغانستان پر حملے کی غلطی کی تھی جبکہ امریکا بہادر
نے ایک طرف پوری دنیا میں مداخلت کی پالیسی سے پوری دنیا کو اپنا دشمن بنا رکھا ہے
تو دوسری طرف افغانستان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی مشکلات میں خود اپنی ہی
پالیسیوں کی وجہ سے اضافہ کرتا جا رہا ہے۔دنیا اس دلچسپ تماشے کے ڈراپ سین کا شددت
سے انتظار کر رہی ہے۔کیونکہ آج کی پل پل بدلتی دنیا میں یہ اب کو ئی نئی اور
انوکھی بات نہیں ہے۔ویسے بھی امریکی پالیسیاں ہی امریکی خاتمے کے لئے کافی ہیں۔