جمہوریت نظام نہیں بلکہ کسی نظام کو توڑنے، ختم کرنے، بدلنے اورکنٹرول کرنے کے لئے ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے پہلے سے موجود کسی نظام کے ماننے والوں کو جھوٹ، دھوکے، مکر و فریب، خوشنما واعدے، خیالی پلاؤ وغیرہ وغیرہ ۔۔ سے بہکاوے میں لے کر کنٹرول کیا جا سکے۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق
مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم
بغل میں اس کی ہیں اب تک بتان عہد عتیق
مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت
ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحب تصدیق
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
حضرتِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کا ایک حقیقی منظر نامہ پیش کیا ہے کہ کس طرح سے اس سارے نظام کی شیطان نے بساط بچھا رکھی ہے اور کس طرح سے اسے چلا رہا ہے ۔یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح سے آج دنیا میں مختلف ممالک حکومتیں بنانے اور چلانے کے لئے انتخابات یا کسی اور ذریعے کو کام میں لاتے ہوئے قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ بناتے ہیں اور پھر اس میں مختلف معاملات پر بحث کرنے کے بعد ان معاملات سے متعلق فیصلے کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح علامہ محمد اقبال ؒ بھی ایک فرضی (خیالی) اسمبلی( مجلس شورٰی )یا پارلیمنٹ کہہ لیں تشکیل دیتے ہیں جس میں حکمران پارٹی شیطان کا ٹولہ ہے اور اس کا سربراہ خود ابلیس (شیطان)ہے۔اس (مجلس شورٰی) پارلیمنٹ میں زیر بحث آنے والے معاملات اور مسائل کا تعلق درحقیقت ہمارے آج اور آنے والے کل کے مسائل سے ہے۔اس اجلاس کی صدارت چونکہ خود ابلیس کر رہا ہے لہذا سب سے پہلے ابتدائی خطاب بھی خود ابلیس ہی کرتا ہے اور پھر باری باری اس کے مشیر وزیر جو تقریباً پانچ ہیں اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔آخر میں اجلاس کی کاروائی کو سمیٹتے ہوئے ایک بار پھر صدر مجلس یعنی خود ابلیس اپنے مشیروں سے خطاب کرتا ہے اور اجلاس کی ساری کاروائی کی روشنی میں اپنے انتہائی اہم مشورے دینے کے ساتھ اپنے خدشات کا بھی اظہار کرتا ہے۔
اس کتاب میں ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ ترجمہ و تشریح آج کی نوجوان نسل کو سمجھنے میں آسانی رہے۔کیونکہ ہمارا کل یہی نوجوان ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنے اسلاف سے روحانی فیض لینے کی سعادت و شرف عطافرمائے۔آمین
ایک ضروری وضاحت
یہ نظم (ابلیس کی مجلس شورٰی ) ۱۹۳۲ء میں حضرت اقبالؒ نے تحریر فرمائی تھی۔اور آج ہم ۲۰۱۸ ء میں بیٹھے سانس لے رہے ہیں تقریباً چھیاسی سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس نظم کو پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ آج لکھی گئی ہو۔ یہ اس لئے کہ اس نظم میں بیان ہونے والے مسائل کا تعلق عین ہمارے آج کے دور سے ہے۔ابلیسی اور دجالی نظام آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔کوئی ملک شہر اور گلی محلہ آج اس فتنے سے محفوظ نہیں رہا ہے۔عرب جہا ں سے اسلام کا چشمہ پھوٹا تھا آج وہیں پر اسلام کو دفن کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔آلِ سعود کے حکرانوں نے اسرائیل اور امریکا کو کھولی چھوٹی دے دی ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ میں جو جی میں آئے کریں۔نیا ولی احد سلمان اسی سلسلے کی کڑی ہے جس نے آتے ہی اسلام کے بنیادی ارکان پر وار کرتے ہوئے بے پردگی کو قانونی شکل دے دی ہے یہی نہیں بلکہ عرب کی سرزمین پر پہلی دفعہ ناچ گانے کے لئے باقائدہ کلب اور سینما گھروں کی اجازت کے ساتھ ساتھ تیزی سے تعمیر کے کام کا حکم بھی دے دیا ہے۔آل سعود ویسے تو پہلے دن سے ہی اہل یہود و نصارٰی کی مٹھی میں تھی لیکن اب اسرائیل امریکا کے ذریعے سے سعودی عرب میں داخل ہو چکا ہے اور آل سعود کے شہزادوں کے ساتھ کھلم کھلا کاروباری معاہدے کر رہا ہے۔پورے مشرقِ وسطہ میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر اسرائیل اور امریکا نے انہی سعودی حکمرانوں کی مدد سے ایک نہ ختم ہونے والا فساد شروع کر رکھا ہے۔جس کا واحد مقصد آنے والے دنوں میں اسرائیلی ریاست کو وسعت دینا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ و مدینہ کو ایران کے قبضہ میں دینا ہے۔خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں مدد دینے والا یہ نجدی حکمران ٹولا جسے آل سعود کے نام سے شاہی خاندان بنایا گیا تھا اسی نے عرب کی سر زمین پر کفار کی فوجوں کو داخل کیا ۔آج بھی یہی ہیں جنہوں نے اسرائیل کو سعودی عرب میں خوش آمدید کہا ہے۔فلسطین ،شام اور یمن کے مسلمانوں پر اسرائیلی جہازوں سے ہونے والی بم باری کے لئے سعودی ہوائی اڈے انہی فاسق و فاجر آلِ سعود کے حکمرانوں نے اسرائیل اور امریکا کو دے رکھے ہیں یہی نہیں ان جہازوں کے لئے مفت تیل کی سپلائی بھی مہیاکر رکھی ہے۔پاکستان ،افغانستان ،ترکی اور فلسطین کے حالات آج پوری دنیا کے سامنے ہیں جنہیں سمجھنا اب کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ترکی میں جناب طیب اردگان کی حکومت عالم اسلام کے لئے ایک نوید مسرت سے کم نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے حضور تمام مسلمان دُعا گو ہیں کہ ایسا حکمران پاکستان ،افغانستان اور دیگر ممالک کو بھی مل جائے۔آمین ثما آمین۔
اللہ تعالیٰ حضرت اقبال رحمۃ اللہ کی مرقد پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔آمین
۲۹؍۷؍۲۰۱۸
وہ یہودی فتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بُروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تارتار
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ہونے والی تمام جنگوں کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ رہا ہے ۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم انہی شاطر دماغ یہود کی کارستانی تھی ۔آج پھر یہی اہل یہود ہیں جنہوں نے ایک بار پھردنیا میں دہشت گردی کا فساد مچا رکھا ہے ۔۱۱۔۹ جیسا دہشت گردی کا واقع کرنے والے کوئی اور نہیں یہی اسرائیلی یہودی تھے۔فلسطین ،اُردن، لبنان، یمن، شام اور برما سے لے کر کشمیر تک ہونے والے ہرچھوٹے بڑے واقع کے پیچھے انہی یہود کا ہاتھ ہوتا ہے۔دنیا کے امن کو تباہ کرنے والے درحقیقت یہی اہل یہود ہیں۔ یہی وہ قوم ہے جس نے انبیاء علیہ السلام کو قتل کیا یہی حضرت عی علیہ السلام کو سولی چڑھانے میں پیش پیش تھے اور اپنے ہوتے سوتے انہوں نے اس بُرے کام کو تکمیل کے آخری مرحلے تک پہنچایا یہی اس بد بخت قوم کا کردار اور ماضی رہا ہے۔آج فلسطین ،شام اور یمن میں ہونے والی جنگوں کے پیچھے اصل حقیقت اسرائیل کی شیطانی ریاست ہے جو ہر آنے والے دن میں اپنی سرحدوں کو وسعت دینے کے لئے عرب ممالک میں داعش کے ذریعے دہشت گردی کر رہی ہے۔
ابلیس
خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہتا ہے۔۔
یہ عناصر کا پرانا کھیل ، یہ دنیا ئے دوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تماناؤں کا خوں
شرح و تشریح
یہ دنیا ایک پرانا کھیل ہے جو آگ ،پانی،مٹی اور ہوا وغیرہ سے تشکیل دیا گیا ہے ۔اسے کھیل اس لئے کہا ہے کہ جس طرح کھیل کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی اسی طرح اس کائینات کی بھی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے۔یہ کھیل اس لئے بھی ہے کہ جس طرح کھیل (ڈرامہ) کے اسٹیج پرمختلف کردار اورمنظر پر آتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں اسی طرح دنیا کے اسٹیج پر بھی لوگ آتے ہیں (پیدا ہو ہو کر دنیا کے اسٹیج پر آ رہے ہیں) اور اپنا اپنا کردار ادا کر کے جا (مرتے جا رہے ہیں ) رہے ہیں۔ یہ عمل نا جانے کب سے ہو رہا ہے۔ شیطان یہ بھی کہتا ہے کہ یہ دنیا اپنی فطرت اور ذہنیت کے لحاظ سے انتہائی کمینی اور رذیل ہے کیونکہ یہ کسی سے وفا نہیں کرتی۔ بلکہ اُلٹا یہ رذیل لوگوں کی پرورش کرتی ہے اور شریف النفس انسانوں کو رگیدتی ہے۔ شیطان یہ بھی کہتا ہے کہ یہ دنیا آسمانوں سے آگے خدا تعالیٰ کے انوار کے جہان میں رہنے والے ملائکہ اور فرشتوں کی آرزوؤں کی بربادی کا سبب بھی بنی ہے۔ کیونکہ حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے خدا کے عرش کے آس پاس فرشتے اور ملائکہ ہوتے تھے جو خدا کی بزرگی اور پاکی بیان کرتے رہتے تھے اور اس وقت اللہ کے نذدیک یہی معزز مخلوق تھی۔ پھر جب آدم کی تخلیق ہوئی تو فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ اس کے آگے سجدہ کریں اور اس طرح آدم کو سجدہ کرانے سے اللہ نے آدم کو فرشتوں سے افضل بنا دیا۔ (یہی تمناؤں کا خوں ہے) اس تبدیلی کو شیطان فرشتوں کی آرزوؤں کا برباد ہونا کہتا ہے۔ لیکن خود شیطان نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور انکار کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود کو آدم سے برتر اور افضل سمجھتا تھا۔ اس نے اپنی امیدوں کا خون نہیں ہونے دیا اگرچہ اس جرم کی پاداش میں بطور سزا اسے دربار خداوندی سے نکال دیا گیا۔ لیکن اس نے فرشتوں کی طرح خود کو آدم کے آگے نہیں جھکایا۔
الفاظ و معنی
قدرتی عناصر چار ہیں اور عنصرکی جمع عناصر یعنی آگ ، پانی ، مٹی اور ہوا ہر چیز انہی مادی اجزا سے بنی ہے اور اس پرانی دنیا کا سارا کھیل انہی چار عناصریعنی آگ ،پانی،مٹی اور ہواکی ترکیب خاص سے معرض وجود میں آیاہے ۔اور اسے وجود میں آئے اتنا طویل عرصہ اور زمانہ ہو گیا ہے کہ جس کااندازہ نہیں کیا جا سکتا اس لئے پرانی ،بوڑھی اور دنیائے دوں مطلب رذیل و کمینہ صفت بھی ہے۔ساکنان ساکن کی جمع ہے۔ یعنی رہنے والے خُدا اور فرشے۔ جو بلندوبالا عظمت والے خدا کا تخت جو کہیں آسمانوں سے بھی بہت دور آگے ہے یہ تخت کوئی مادی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے انوار کا ایک جہان ہے جسے خدا کی عظمت اور حقیقی بادشاہت کی بنا پر تخت کا نام دیا گیا ہے۔
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کانام رکھا تھا جہان کاف و نون
شرح و تشریح
ابلیس کہتا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے وہ بگڑے ہوئے کام بنانے والا خدا جس کے ایک لفظ کن (ہو جا )کہنے سے کائینات عدم سے وجود میں آ گئی تھی وہی آج اس کی بربادی پہ تلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ دنیا کے وجود میں آنے کے کئی نظریے پیش کئے جاتے ہیں۔ لیکن قرآن نے یہی بتایا ہے کہ پہلے عدم تھا یعنی خدا کے سواء کچھ بھی نہ تھا پھر ارادہ کیا اور کن کہا تو سب کچھ ہو گیا۔
نوٹ:ڈارون اور اس جیسے دیگر فلسفہ دان جنہوں نے اس کائینات کی پیدائش سے متعلق مختلف بے تکے قسم کے نظریے پیش کیے درحقیقت یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تھا۔حوالے کے لئے پڑھیں (یہودی پروٹوکولز) آج کے ترقی یافتہ دور جس میں ڈی۔این۔اے تک کی دریافت ہو چکی ہے جس کے ذریعے پوری انسانی تاریخ معلوم کی جا سکتی ہے ۔
الفاظ و معنی
کارساز: یعنی ہر طرح کے کام بنانے والا ۔کاف و نون: مطلب ک ۔ن ۔سے مل کر لفظ کن بنتا ہے اور جب کن کہا تو فیکون ہوگیا۔یعنی اللہ تعالیٰ (ہو جا) کہا اور فیکون (ہو گیا)مطلب کائینات اور اس کی جملہ اشیا ء اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے عدم سے وجود میں آگئیں۔
میں نے دیکھایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجدو دیر و کلیسا کا فسوں
شرح و تشریح
شیطان کہتا ہے کہ میں نے ہی اہل یورپ کو بادشاہت کا حسین خواب دیا اور اس طرح شخصی حکومت قائم کر کے میں نے عوام کو بے بس و بے کس بنا کے رکھ دینے والی فکر عطا کی۔یہی نہیں بلکہ میں نے مختلف مذاہب کو ماننے والوں کے دلوں میں ان کی عبادت گاہوں سے نفرت دلا دی اور صدیوں سے ان پر مسجد، دیر اور کلیسا کا جو اثر تھا اسے ختم کر دیا۔ شیطان کہتا ہے میں نے اس طرح سے ان کے مذہبی عقائد کومسخ کر کے رکھ دیا کہ جس کے نتیجے میں مذہب ان کے دلوں سے بالکل رخصت ہو گیا۔یعنی مذہب کا جو جادو پہلے ان کے سر چڑھا ہوا تھا وہ جاتا رہا۔
الفاظ ومعنی
فرنگی: انگریز،یورپ کا باشندہ۔ملوکیت: بادشاہت۔خواب دیکھایا:ایک حسین خیال دیا۔دیر: مندر،ہندوؤں اور دیگر غیر مسلموں کی عبادت گاہ۔کلیسا:گرجا،عیسائیوں کی عبادت گاہ۔مسجد:مسلمانوں کی عبادت گاہ۔فسوں توڑا: جادو توڑا۔
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
شرح و تشریح
دنیا میں دو طبقات ہیں۔ان میں ایک طبقہ امیر ہے جبکہ دوسرا غریب ہے۔شیطان کہتا ہے کہ میں نے دولت مندوں کے ذہن و دل میں دولت کی ایسی محبت پیدا کر رکھی ہے کہ وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے ، جائز نا جائز اور حلال حرام طریقے اور ذریعے سے اسے اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں اس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ جبکہ ان کے مقابل غریب اور مفلس محنت مزدوری کر کے اپنی روزی کماتے ہیں اوران غریبوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھا رکھی ہے کہ وہ تو پیدا ہی ان امیروں ،وڈیروں،جاگیرداروں،نوابوں اور بادشاہوں وغیرہ کی خدمت کرنے اور ان کے ہاتھوں اپنی آزادی اور عزت لٹانے کے لئے ہوئے ہیں لہذا یہ اسے تقدیر کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا ان کی قسمت میں لکھا ہوا ہے جس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں
شرح و تشریح
شیطان اعلانیہ کہتا ہے میں نے جس شخص میں ابلیسی اور شیطانی نظامِ حیات کی اقدارِ زندگی کو جلہ دینے والی آگ جلا رکھی ہے اسے کوئی ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔چونکہ اس کے معاملات ،کاروبار حیات اور فکر و عمل میں یہ آگ میری اندرونی حرارت کی وجہ سے جل رہی ہے لہذا کسی میں ہمت نہیں کہ اس کو بجھا سکے۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ آج کے دور کے انسان کا ہر قدم میری اسی حرارت کی وجہ سے اُٹھ رہا ہے اور اس کا ہر فعل اسی تپش وشورش کی بنا پر سرزد ہو رہا ہے۔اوریہ بات میرے دعویٰ کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔
الفاظ و معنی
آتشِ سوزاں:جلا دینے والی آگ۔ابلیس:شیطان۔ہنگامہ:شورش،زندگی کا کاروبار اور معاملات،فکر و عمل،جدوجہد۔سوزدروں:اندر کی حرارت،اندر کی جلن۔
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سر نگوں
وضاحت:اس سے پہلے شعر میں شیطان نے کاروبار دنیا اور معاملات حیات میں اپنے عمل دخل کو آگ اور حرارت کی علامتوں سے واضع کیا تھا۔ اس شعر میں اس عمل دخل کی وضاحت ایک درخت کی مثال دے کر کرتا ہے۔
شرح و تشریح
شیطان اپنے دعویٰ کے حق میں مزید دلائل دیتے ہوئے کہتا ہے کہ شیطانی درخت تو آغازِ کائینات ہی سے لگا ہوا ہے اور یہ بہت پرانا ہے۔ اس درخت کی نسبت حضرت آدم علیہالسلام کو اللہ کے حکم سے انکار کرنے والے اور آدم کو سجدہ نہ کرنے والے دن سے ہے۔ شیطان مزید کہتا ہے کہ میں نے تو اسی روز سے خدا کی مخلوق کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اس درخت کو جو جڑوں سے لے کر پھل تک شیطنت کا مزہ لئے ہوئے ہے میں اور میرے شتونگڑے برابر پانی دیتے رہتے ہیں لہذا اب یہ اتنا بلند و بالا اور شاخوں کے دور دور تک پھیلاؤ والا درخت بن چکا ہے کہ اس کو گرانے یا جڑسے اکھاڑ پھینکنے کی کسی میں ہمت نہیں ۔
پہلا مشیر اپنی رائے دیتے ہوئے کہتا ہے
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تراس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
شرح و تشریح
شیطان کی تقریر سن کر پہلا مشیر اور اس کی حکومت کا رکن اُٹھتا ہے اور شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے آقا اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شیطانی نظام حیات کا آپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے وہ بڑا پائدار اور مضبوط نظام ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں کہ اسے تبدیل کر سکے یا اسے ختم کر سکے اور اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جو نظام حیات ہم نے دنیا والوں کو دے رکھا ہے اس سے لوگ غلامی کی عادت میں پائدار سے پائدار ہوتے جا رہے ہیں۔ بلکہ غلامی ان کے مزاج اور ذہنیت میں رچ بس گئی ہے اور ہمارے نمائندوں کے آگے جو بادشاہ، نواب، وڈیرے، جاگیردار، زمیدار وغیرہ کی شکل میں ہر جگہ موجود ہیں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔
معانی
محکم :پائدار،مضبوط۔ابلیسی نظام:شیطان کا دیا ہوا نظام حیات۔پختہ تر: زیادہ مضبوط۔خوئے غلامی: غلامی کی عادت۔عوام:سب لوگ یا عام لوگ۔
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضہ ہے نمازِ بے قیام
شرح و تشریح
یہ لوگ جو ہماری تدبیر کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہی ہمارے نظام کے پرستار چلے آ تے ہیں۔ اپنے آقاؤں کے آگے جھکنا ان کی قسمت بن چکی ہے ان کی زندگی کی مثال تو ایک ایسی نماز کی سی ہے جس میں قیام کرنے یعنی کھڑے ہونے کا رُکن موجود ہی نہیں ہے بلکہ صرف رکوع و سجود ہی ہے یعنی جھکنا ہی جھکنا ہے۔یہ اپنے آقاؤں کی غلامی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب اس غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا انہیں خیال تک بھی نہیں آتا۔
معانی
ازل:جہان کی تخلیق سے پہلے کا وقت جس کی ابتدا معلوم نہیں کی جا سکتی۔مراد ہے ہمیشہ سے۔مقدر:قسمت۔سجود:سجدہ کرنا۔غریب: طنز کے طور پر کہاہے یعنی بے بس و بے کس لوگ۔فطرت: سرشست،ذہنیت۔قیام: کھڑے ہونا۔نماز بے قیام: ایسی نماز جس میں کھڑے ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اور نمازی مستقل حالت سجدہ میں ہی رہے۔
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیداتو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
شرح و تشریح
یہ لوگ شیطانی نظام کے اتنے زیادہ غلام بن چکے ہیں کہ غلامی کی اس زندگی سے آزاد ہونے کی خواہش اول تو ان کے دلوں میں اب پیدا ہی نہیں ہوتی اور اگر کہیں پیدا ہوتی بھی ہے تو یا تو وہ ختم ہو جاتی ہے یا پھر کچی (ناپختہ) رہ جاتی ہے اور اس طرح کوئی بھی ہمارے نظام کی جکڑ بندی سے باہر نہیں نکل سکتا۔
معانی
خام: کچی،ناپختہ۔آرزو: خواہش۔
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
شرح و تشریح
یہ ہماری لگاتار محنت اور کوششوں کا عقل کو حیران کر دینے والا نتیجہ ہے کہ آج تصوف (طریقت) اور دین (شریعت) کے میدانوں کے لوگ صوفیانہ اور دینی روح سے بیگانہ ہو کر بادشاہت کے غلام بن چکے ہیں وہ صوفی جن کے بوریا کے آگے کبھی تاج و تخت جھکتے تھے آج خود بادشاہوں کے تخت کا طواف کر رہے ہیں۔یہی صورتِ حال علمائے دین کی بھی ہے کل تک جوجابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے خوف نہیں کھاتے تھے آج مصلحت کا شکار ہو کر ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔
معانی
سعی پیہم: لگاتار کوشش۔ملوکیت: بادشاہت۔صوفی: تصوف و طریقت کو اپنانے والے۔کرامت: کسی صوفی سے اسی بات یا کام کا ہونا جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہو۔(یہ ضروری نہیں کہ صرف صوفی سے ہو یہ کسی بھی اللہ کے نیک بندے سے ہو سکتی ہے)۔
طبعِ مشرق کے لئے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علمِ کلام!
شرح و تشریح
ہم نے مشرق کے رہنے والوں (مراد مسلمانوں ) کو جو مغرب کی بجائے مشرق میں زیادہ آباد ہیں دو نشہ آور چیزیں کھلا رکھی ہیں ایک قوالی اور دوسری کلام کا علم۔موجودہ پاکستان اور ہندوستان میں قوالی کو صوفیانہ نظام میں بڑا عمل دخل رہا ہے اور اسے روحانی جذبات میں اشتعال پیدا کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن آج صوفیانہ حلقوں میں تصوف کی اصل روح تو غائب ہو چکی ہے اور اب صرف قوالی پر زور ہے ایسی قوالی جو روح پر کوئی اثر مرتب نہیں کرتی۔ دوسری طرف دینی حلقوں کو دیکھیں تو وہاں بھی علمائے دین، دین کی اصل باتوں سے ہٹ کر لا یعنی مسائل پر بحث کرنے اور ان کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے دلیلوں کے بکھیڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس طرح ان دونوں حلقوں کے لوگ عمل سے اسی طرح بیگانہ ہو چکے ہیں جس طرح افیون کھانے والا کو ئی شخص ہر وقت اونگتا رہتا ہے اور زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہوئے گھبراتا ہے۔
معانی
طبع مشرق: مشرق کا مزاج ،مشرقی لوگوں کی طبیعت۔کم تر:زیادہ کم۔موزوں: مناسب۔افیون:ایک نشہ آور چیز جو نشہ کرنے والے کو عمل سے بیگانہ کر دیتی ہے۔قوالی: وہ راگ جو صوفیانہ محفلوں میں روح کی بالیدگی کے لئے گایا جاتا ہے۔علم کلام: کلام کا علم ۔یہ ایسا علم ہے جس میں دین کی باتوں کو عقل اور دلیل سے ثابت کیا جاتا ہے ۔
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
شرح و تشریح
اگر اس دور کے مسلمانوں میں مکہ معظمہ جانے اور وہاں جا کر کعبہ شریف کے گرد چکر لگانے اور اہم رکن اسلام حج کی رسوم ادا کرنے کی کوئی صورت باقی رہ گئی ہے تو وہ محض ایک اجتماع اور بھیڑکی سی صورت ہے۔کعبہ کا طواف کرنے اور حج کے لئے مکہ معظمہ میں جمع ہونے کا اصل مقصد تو مسلمانوں میں قوت، اتفاق اور مرکزیت پیدا کرنا ہے۔لیکن آج اس کے برعکس نفاق کی صورتِ حال نظر آتی ہے۔مسلمانوں کے اندر وہ قوت جو باطل سے ٹکرانے کے لئے ہر وقت تیار رہتی تھی اب ختم ہو چکی ہے۔کبھی مسلمان اپنے دشمنوں کے لئے ننگی تلوار کی مانند تھاجو ہر وقت ان کو کاٹنے پر امادہ نظر آتی تھی لیکن آج یہ صورتِ حال ختم ہو چکی ہے اور مسلمانوں میں اللہ کی راہ میں لڑنے کا جزبہ ختم ہو چکا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں مسلمانوں کے حج کے اجتماع اور کعبے کے گرد چکر لگا کر اس سے وابستگی کے اظہار سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
معانی
طواف:کعبے کے گرد چکر لگانا۔حج: ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن کو مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور بعض دوسری رسومات (مناسک)ادا کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔کند: جس میں کاٹنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہو۔ہنگامہ:شورش ،بھیڑ۔مومن: اہل ایمان ،اللہ اور رسولﷺ پر صحیح ایمان رکھنے والا۔،پکا سچااور صحیح مسلمان۔تیغ: تلوار۔نیام: تلوار کا خول،جس میں تلوار کو اس وقت رکھا جاتا ہے جب چلانا مقصود نہ ہو۔تیغ بے نیام: خول کے بغیر تلوار،ننگی تلوارجو ہر وقت دشمن کو کاٹنے کے لئے تیار ہو۔
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
ہے جہاد اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام!
شرح و تشریح
برِصغیرکے ایک علاقے اور متحدہ پنجاب کے ایک قصبے قادیان میں انگریز عہدِ حکومت میں ایک شخص بنام مرزا غلام احمد پیدا ہوا تھا جس نے دین کی صدیوں کی روح کے خلاف یہ نیا حکم یا فتویٰ دیا تھا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ کے دشمنوں سے لڑنا اس عہد میں دینی اور شرعی اعتبار سے ناجائز ہے اور انگریز جو ہم پر حکمران ہیں ان کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنا مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ہے۔ یہ شخص خود کو موعود مسیح کہتا تھا۔مراد تھی کہ میں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں جسے قیامت سے پہلے روئے زمین پر آکر اسلام کو تقویت پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام جس کے اس طرح آنے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ مریم علیہ السلام کا بیٹا نہیں بلکہ میں ( مرزا) ہوں۔ اس پر برِصغیر کے مسلمانوں میں خصوصاً اور دنیا کے مسلمانوں میں عموماً سخت ردِ عمل ہوا۔ مسیح ہونے کا دعویٰ کرنے والے شخص نے جہاد کے خلاف شرعی حکم یعنی فتویٰ بھی صادر کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ اس عہد میں جہاد کرنا (اللہ کی راہ میں لڑنا) مسلمانوں پر حرام ہے۔
اس شعر میں اس نئے فتویٰ کی طرف اشارہ ہے جو چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں نہیں دیا گیا تھا۔اس نے یہ فتویٰ اس لئے صادر کیا تھا کہ برِصغیر کے مسلمان اپنے آقا انگریز کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہ صورتِ حال مسلمانوں کی ناامیدی پر دلالت کرتی تھی۔ اور ان کو ہمیشہ کے لئے مایوس ہو کر انگریز آقاوں کی غلامی اختیار کرنے کی طرف راغب کرتی تھی۔
معانی
نومیدی:ناامیدی۔حجت:دلیل۔فرمانِ جدید: نیا حکم،جدید دور میں دیا گیا حکم۔فرمان: حکم،فتویٰ۔جہاد: اللہ کی راہ میں لڑنا۔اس دور میں: عہد حاضرمیں۔حرام: دینی اعتبار سے ناجائز۔
دوسرا مشیر
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر!
شرح و تشریح
پہلے مشیر کی باتیں سن کر شیطانی حکومت کا ایک اور رکن اٹھتا ہے اور اپنے سے پہلے کو کہتا ہے تیری ساری باتیں درست ہیں لیکن تو نے جہان میں پیدا ہونے والے ایک نئے فسادی نظام کا ذکر نہیں کیا جس کا نام جمہوریت ہے۔ کیا تجھے اس کی خبر نہیں ہے؟ تو ہمیں اس کے متعلق بتا کہ یہ ہمارے لئے اچھائی کی بات ہے یا بُرائی کی۔ میرے خیال میں جمہوریت کے نام پر یہ بھی ایک شاہی نظام ہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سلطانی یا بادشاہت کے نظام میں ایک شخص با اختیار ہوتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے لیکن جمہوریت کے نظام میں جس میں عوام خود اپنی رائے سے حکومت چلانے کے لئے نمائندے منتخب کرتے ہیں لہذا یہی سلطانی روح ایک شخص کی بجائے چند اشخاص میں داخل ہو جاتی ہے۔ جو وزیر کہلاتے ہیں۔ جو کام بادشاہت میں فردِ واحد کرتا ہے وہی کام جمہوریت میں یہ منتخب شدہ لوگ وزیر بن کر چند خاندانوں اور چند افراد کے ایک مجموعہ کی صورت میں سر انجام دیتے ہیں ۔ لہذا اس صورتِ حال کے پیشِ نظر اے میرے ساتھی رکنِ حکومت، یہ بتا کہ یہ نظامِ جمہوریت جو مغرب نے دنیا کے ملکوں کو دیا ہے درست ہے یا غلط؟ اچھا ہے یا بُرا؟۔
معانی
خیر: اچھائی،نیکی۔شر: بدی، برائی۔غوغا: شور۔فتنہ: فساد۔
پہلا مشیر
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو،کیا اس سے خطر!
شرح و تشریح
پہلا مشیر دوسرے مشیر کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میں دنیا میں اُٹھنے والے اس نئے فسادی نظام اور فتنہ سے با خبر ہوں جس کا نام مغربی جمہوریت ہے۔ اور میں دنیا کے معاملات پر گہری نظر رکھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ مغربی جمہوریت کے پیچھے ملوکی یا شاہی روح ہی کارفرما ہے۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو پھر ہمیں اس جمہوری نظام سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ بھی ہماری پیداوار ہی ہے۔
معانی
جہاں بینی: جہان کے معاملات پر نظر رکھنا۔ملوکیت کا پردہ: بادشاہت کی روح جس کے پیچھے کار فرما ہو۔خطر: ڈر۔
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
شرح و تشریح
جب ہم نے دیکھا کہ آدمی میں مختلف وجوہات کی بنا پر یہ شعور اجاگر ہواکہ وہ اپنی قدر و قیمت کو پہچان سکے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کا اہل ہو سکے تو ہم نے اس کے ذہن و دل میں یہ بات ڈال دی کہ اگر بادشاہی نظام میں تمہاری کوئی قدر و منزلت نہیں تو تم خود اپنے لئے حکران منتخب کر لیا کروجو تم میں سے ہی ہو گاوہ تمہارے حقوق کا خیال بھی رکھے گا۔ اسی کو ہم نے جمہوریت کا نام دے دیا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ منتخب شدہ حکمران بھی وہی حاکمانہ اور بادشاہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو ایک حکمران بحیثیت بادشاہ کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ایک شخص یہ کام کرتا ہے اور جمہوریت میں چند اشخاص یا خاندان مل کر وہی کچھ کرتے ہیں۔ اس لئے اے میرے رفیق فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جمہوری نظام بھی ہمارا ہی پیدا کردہ ہے اس نظام کا لباس ضرور جمہوری ہے لیکن اند ر جسم شاہی ہے۔
معانی
آدم: مراد بنی نو ع آدم۔خود شناس: اپنے آپ کو پہچاننے والے۔ خود نگر: اپنے آپ کو دیکھنے والے۔
کاروبارِ شہر یاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجودِ میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
شرح وتشریح
بادشاہی نظامِ حکومت کا دارومدار اور انحصار کسی امیر یا بادشاہ کے وجود پر نہیں بلکہ اس کی اصلیت امیری اور شاہی رویہ پر ہے۔ یہی امیری یا شاہی رویہ اگر ہم جمہوریت میں پیدا کر دیں تو اس کے ذریعہ منتخب شدہ ارکانِ حکومت وہی کچھ کریں گے جو کچھ سلطانی نظام میں ہوتا ہے۔
معانی
کاروبار شہر یاری: بادشاہی نظام چلانے کا طریقہ۔حقیقت: اصلیت۔میر: امیر۔سلطان:بادشاہ۔
منحصر: انحصار ہونا۔
مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
شرح و تشریح
چاہے کوئی منتخب شدہ اسمبلی یا پارلیمنٹ ہو اور چاہے کسی بادشاہ کا طرز حکومت ہو دونوں کا مقصود ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے دوسروں کو محنت مزدوری پر لگا کر ان کی روزی کو لوٹنا اور انہیں محتاج و نادار رکھنا۔ تم نے دیکھا نہیں کہ ایران کے بادشاہ پرویز نے فرہاد کی محبوبہ حاصل کرنے اور اپنی ملکہ بنانے کے لئے فرہاد کو یہ کہہ کر پہاڑ کھودنے پر لگا دیا تھا کہ اگر تو اس میں سے نہر نکال لائے گا تو شیریں تجھے مل جائے گی، وہ بے چارہ اس کام میں لگ گیا اور پرویز نے شیریں کو اپنی ملکہ بنا لیا۔ اس ایک مثال سے تم شاہی نظام کے رویہ کا اندازہ لگا سکتے ہو۔جمہوریت میں بھی یہی رویہ موجود ہوتا ہے۔
معانی
مجلس ملت: ملی مجلس،قومی اسمبلی۔پرویز: ایران کے ایک بادشاہ کا نام جس نے اپنے وقت کے ایک عاشق کو جس کا نام فرہاد تھاپہاڑ کھودنے پر لگا دیااور خود اس کی محبوبہ کو جس کا نام شیریں تھا اپنے گھر ڈال لیا۔پرویز کا نام بطور شاہی نظام کے یا حکمران کی علامت طور پر لیا گیا ہے۔
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چن گیز سے تاریک تر!
شرح و تشریح
موجودہ طرز کا جمہوری اور پارلیمانی نظام دنیا والوں کو اہل مغرب یعنی یورپ والوں سے ملا ہے۔تم اے میرے رفیق اسے بہ نظر غور دیکھو اس کا ظاہر تو بڑا چمک دارنظر آئے گا لیکن اس کے اندر جو روح ہے وہ دنیا کے ظالم ترین بادشاہ اور فاتح چن گیز سے بھی زیادہ سیاہ ہے اس نظام میں منتخب شدہ ارکانِ حکومت اپنے منتخب کرنے والوں پر جو ستم ڈھاتے ہیں وہ چن گیزیت کو بھی بھلا دیتے ہیں۔
معانی
مغرب:برِاعظم یورپ۔روشن: چمک دار۔اندروں: اندر۔تاریک تر: زیادہ سیاہ۔چنگیز: ایک فاتح کا نام ہے جس کا تعلق ملک منگولیا(ایشیاء)سے تھاجس نے اپنی فتوحات کے دوران اتنے ظلم کئے تھے کہ اس کا نام تاریخ میں ایک بہت بڑے ظالم کی حیثیت سے موجود و مشہور ہے۔
تیسرا مشیر
روحِ سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطرار
ہے مگر کیا اُس یہودی کی شرارت کا جواب؟
شرح وتشریح
پہلے مشیر سے جمہوری نظام کی وضاحت سن کر شیطان کی حکومت کا ایک اور رکن کہتا ہے کہ اگر جمہوری نظام شاہی نظام سے بدتر اور چنگیز کی بربریت سے زیادہ سیاہ ہے توہمیں بے چین ہونے کی واقعی ضرورت نہیں ہے۔لیکن ایک یہودی کارل مارکس نے دنیا کو اشتراکی ،یا کیمونسٹ نظام دے کر ہمارے خلاف جو شرارت کی ہے اس کا تمہارے پاس کیا کیا جواب ہے۔
معانی
روح سلطانی:پادشاہی روح۔اضطراب: بے چینی،بے قراری۔ اس یہودی: ایک شخص بنام کارل مارکس کی طرف اشارہ ہے جس نے سرمایہ نامی ایک کتاب لکھ کر دنیا کو اشتراکی نظام یا کمیونزم دیا۔
وہ کلیم بے تجلی ، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغبر و لیکن در بغل دارد کتاب
شرح و تشریح
اس یہودی کی طرف اشارے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تیسرا مشیر کہتا ہے کہ یہ وہ یہودی ہے جس کو جمہوری اور شاہی نظام کی چکی کے نیچے پسے ہوئے لوگ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا درجہ دیتے ہیں۔اس لئے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کوفرعون کے ظلم سے بچایا تھااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے غریبوں اور بے کسوں کو سینے سے لگایا تھا اسی طرح یہ یہودی بھی اپنے دئیے گئے اشتراکی نظام کے ذریعے غریبوں،مزدوروں،کسانوں اور بے بسوں کو شاہی اور جمہوری نظام کے فرعونوں اور غارت گروں کے ظالمانہ ہاتھوں سے بچا کر خود ان کو حکمران بننے کا طریقہ بتاتا ہے۔بس فرق ہے تو صرف یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو خدا کی تجلی اور نور کا مشاہدہ کرتے تھے اور اس سے باتیں کرتے تھے لیکن یہ یہودی خدا کا انکار کرتا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح یہ بھی غریبوں کو سر بلند کرنے کا طریقہ بتاتا ہے لیکن یہ سولی پر نہیں چڑھایا گیاکیونکہ یہ پیغبر نہیں تھاایک تیسرا اور واضع فرق یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر تو اس لئے آسمانی کتابیں ( توریت اور انجیل) اُتریں تھیں کہ وہ پیغبرِ خدا تھے لیکن یہ یہودی پیغبر تو نہیں ہے لیکن توریت اور انجیل کی طرح ایک کتاب ضرور رکھتا ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ غیر الہامی ہے۔اور اس کتاب کا نام سرمایہ ہے اور جسے یورپ کے مزدور اور کسان طبقہ میں مذہبی کتابوں کی طرح عزت دی جاتی ہے ۔حالانکہ یہ ایک بندے کی تصنیف ہے۔
معانی
کلیم: مشہور پیغبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے جنہیں کوہِ طور پر خدا وند تعالیٰ کی تجلی نصیب ہوئی تھی اور وہ اس سے گفتگو کرتے تھے اور جن کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکال کر ظاہر کرتے تھے تو وہ چمکتا تھا۔کلیم کے لفظی معنی ہیں باتیں کرنے والا۔مسیح بے صلیب: مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو خدا کے بر گزیدہ پیغبر تھے اور جنہیں عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق صلیب پر یعنی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔مسیحِبے صلیب : مراد ایسا مسیح جسے سولی پر لٹکایا نہ گیا ہو۔نیست: نہیں ہے۔دربغل : بغل میں۔دارد: رکھتا ہے۔
کیا بتاوں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لئے روزِ حساب!
شرح و تشریح
اس ابلیسی نظام کے انکار کرنے والے یہودی کی نگاہ نے ملوکیت اور جمہوریت پر پڑے ہوئے پردوں کو جلاکر اس کے پیچھے ان نظاموں کی اصل خربیوں کو دیکھ لیا اور خود اپنی طرف سے ایک نیا نظام حیات دیا جس کی وجہ سے مشرق و مغرب کی قوموں کے پسے ہوئے اور ستائے ہوئے فاقہ کش ،غریب ،مزدور اور کسان اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے اس طرح جاگ اُٹھے جیسے قیامت کے روز مردے جاگ اُٹھیں گے۔ان پسے ہوئے طبقات کی زندگیاں ملوکی اور جمہوری نظاموں میں مردوں کی طرح تھیں اب ان میں زندہ رہنے اور زندہ رہنے کے لئے ظالموں سے نپٹنے کا شعور پیدا ہو گیا ہے۔
معانی
کافر: انکار کرنے والا۔پردہ سوز: پردہ جلانے والا ۔روز حساب: حساب کا دن ،قیامت کا دن ۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گاطبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب!
شرح و تشریح
اس شعر میں اس عظیم اشتراکی انقلاب کی طرف اشارہ ہے جس کے ذریعے عوام نے ایک شخص بنام لینن کی قیادت میں اکٹھے ہو کر روس کے شہنشاہ زار روس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھااور حکمرانوں کو قتل کر دیا تھا۔بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کی زمینیں چھین لی تھیں ۔کارخانوں کے مالکوں کو کارخانوں سے بے دخل کر کے ان پر اپنا کنٹرول حا صل کر لیا تھااور سارے ذرائع معیشت کو مزدوروں اور کسانوں کی بنائی ہوئی حکومت کے قبضے میں کر دیا تھا۔شیطان کا مشیر اسے عوام کے مزاج میں پیدا ہونے والا فساد کہتا ہے جس کے ذریعے انہوں نے غلام ہوتے ہوئے ایسے اقدامات کئے کہ ان کے مالک تہس نہس ہو کر رہ گئے۔آقاؤں کے خیموں کی رسیاں توڑ کر ان کو گرا دینے کا یہی مفہوم ہے کہ انہیں سارے ذرائع سے محروم کر دیا۔یہ دنیا میں پہلا اشتراکی انقلاب اور اس کے ذریعے پہلی اشتراکی نظام والی حکومت قائم ہونے کا عمل تھاجس کے بعد یہ دو سرے ملکوں تک پھیل گیا۔شیطان کا یہ مشیر اسے اپنی شیطانی حکومت کے لئے چیلنج قرار دیتا ہے اور پریشان ہے۔
معانی
بندوں: غلا موں۔ آقاؤں : مالکوں۔طناب: رسی
چوتھا مشیر
توڑ اس کا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
شرح و تشریح
چوتھا مشیر تیسرے مشیر کی پریشانی اور بے قراری دیکھ کر کہتا ہے کہ اشتراکی نظام سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ہم نے اس کو روکنے اور ختم کرنے کے لئے اطالیہ (اٹلی) میں ایک شخص بنام مسولینی پیدا کر دیا ہے (مطلب کھڑا کر دیا ہے) جس نے فاشسٹ نظام نافذکر کے اشتراکی نظام کا راستہ روک دیا ہے۔فاشسٹ نظام میں ساری طاقتیں ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔وہ اطالیہ(اٹلی) کو کبھی عظیم رومن سلطنت کا مرکز تھااس سلطنت کے پرانے محلوں میں اب مسولینی موجود ہیجس نے قدیم رومن ہیرو سیزر کی اولاد کو یعنی اہل اطالیہ کو یہ خواب دیکھایا ہے کہ میرے دئے گئے فاشسٹ نظام کے ذریعے ہم پھر قدیم رومن سلطنت کی سی وسعت اور عروج حاصل کر لیں گے۔یہ قدیم رومن سلطنت قبل از مسیح یورپ،ایشیا اور افریقہ کے وسیع علاقوں پر مشتمل تھی جو اسلامی عہد تک کافی سمٹ چکی تھی ۔اس رہی سہی سلطنت کو مسلمانوں نے ختم کر دیا تھا۔
معانی
توڑ: روک کرنا،خاتمہ،مٹانا،مقابلہ میں۔رومۃ الکبریٰ: عظیم رومن سلطنت جو قبل از مسیح قائم تھی۔ایوانوں: محلوں ۔آل سیزر: سیزر کی اولاد سیزر
قدیم ملک روم کا جسے آج کال اٹلی (یورپ کا ایک ملک) کہتے ہیں اور قدیم رومن سلطنت کا عظیم ہیرو تھا۔سیزر کا خواب: جو خواب کہ سیزر نے کبھی عظیم رومن سلطنت قائم کرنے کے لئے دیکھا تھا۔
کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالد چوں صنوبر ،گاہ نالد چوں رباب
شرح و تشریح
بحرہ روم کی موجوں سے کون لپٹا ہوا ہے ۔وہ مسولینی کا عظیم بحری بیڑا ہے جو اس سمندر پر حاکمیت قائم کرنے کے لئے اور سمندر پار کے افریقی ممالک پر قبضہ جمانے کے لئے کبھی ابھرتا ہوا اور کبھی سائرن بجاتا ہوا اپنے کام میں مصروف ہے ۔اس شعر کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسولینی بحرہ روم کو تسخیر کرنے کے لئے اپنی قوم سامنے ولولہ انگیز تقریروں کے ذریعہ کبھی ان کو صنوبر کے درخت کی مانند (بلند حوصلہ عطا کر کے) کھڑا کر دیتا ہے اور کبھی ان کو رباب کی مانند کھوئی ہوئی عظمت پر خود رو کر اور ان کو رلا کر ان میں اسے بحال کرنے کا ولولہ پیدا کر رہا ہے اور اس کے لئے بحرہ روم پر اپنی حاکمیت قائم کر کے اور اسے عبور کر نے کے بعد افریقی ممالک پر قبضہ جما کر عملاًان کو سر بلند ہونے کا ثبوت مہیا کر رہا ہے۔یاد رہے کہ مسولینی نے دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ تا ۱۹۴۵) سے پہلے افریقہ کے ممالک حبشہ ،ایریٹیریا ، طرابلس وغیرہ پر قبضہ کر لیا تھا۔دوسری جنگ عظیم کے شروع ہی میں مسولینی کو اتحادیوں نے زبردست شکست دی جس کے بعد یہ ممالک اس کے تسلط سے نکل گئے۔
معانی
بحرروم: یورپ اور افریقہ کے درمیان ایک سمندر۔گاہ: کبھی۔صنوبر: ایک قد آور درخت ۔بالد: ابھرتاہے۔نالد: روتا ہے۔چوں: مانند ۔ رباب : ایک قسم کا ساز۔
تیسرا مشیر
میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب
شرح و تشریح
چوتھے مشیر کی رائے سن کر تیسرا مشیر اسے کہتا ہے کہ میں تو مسولینی کی سیاست اور نظام کو نہیں مانتا کیونکہ اس نے یہ سوچاکہ اس کا انجام کیا ہو گا۔اس کے انجام کے طور ہر اہل
یورپ کی سیاست کا پول مزید کھل جائے گااور اس طر ح اشتراکی نظام کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔لوگ مغربی جمہوریت اور ملوکیت کے ظلم کی طرح مسولینی کے فاشسٹ نظام کے ظلم کی وجہ سے اس سے بھی تنگ آجائیں گے جس کے نتیجے میں اشتراکیت کو ابھرنے کامزید موقع مل جائے گا۔
معانی
عاقبت بینی: انجام کو دیکھ لینا۔قائل: ماننا۔افرنگی سیاست: اہل یورپ کی سیاست ۔بے حجاب: بے پردہ۔
پانچواں مشیر
ابلیس کو مخاطب کر کے
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار !
تو نے جب چاہا، کیا ہر پردگی کو آشکار
شرح و تشریح
اے میرے آقا تیری سانس کی گرمی سے دنیا کا کام چل رہا ہے۔اگر لوگوں میں تیرے سینہ کی حرارت نہ پہنچی ہوتی تو یہ دنیا کے ہنگامے سردرہتے تو وہ ہستی ہے کہ دنیا کی پوشیدہ باتیں بھی تجھ پر ظاہر ہیں اس لئے ہمیں یہ بتا کہ اس اشتراکی نظام سے ابلیسی نظام کو کیا خطرات ہیں۔
معانی
سوز نفس: سانس کی تپش۔کارِ عالم: دنیا کا کام ۔ استوار: پائیدارہونا،قائم ہونا۔ پردگی: چھپی ہوئی ۔ آشکار: ظاہر۔
آب و گلِ تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
ابلہِ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
شرح وتشریح
یہ جہان جو آگ،پانی،مٹی اور ہوا کے عناصر سے بنا ہوا ہے اور یہ آدم جو انہی عناصر سے وجود میں آیا ہے ۔تیری دی گئی گرمی کی وجہ سے حرارت اور رنگینی کا مجسمہ ہے ۔اور جنت کا یہ بھولا یعنی آدم تیری تعلیم کی وجہ سے ہی کاروبار دنیا سے آشنا ہے